خالد حشم اللہ
گروپ ایڈیٹر:آزاد نیوز
لوک سبھا میں آج پیش کئے گئے عبوری بجٹ کوحکومت کی جانب سے ووٹروںکو’انتخابی رشوت‘دینے کی ایک حکومتی کوشش ہے،کیونکہ پانچ سالہ حکومت میںچھٹی باربجٹ پیش کرناوہ بھی انتخابی سال میںچہ معنی ٰ دارد؟۔ہندوستانی جمہوری نظام میں عوام اپنی حکومت پانچ سال کے لئے منتخب کر تی ہے اور اس منتخب حکومت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ جب تک اس کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے اس وقت تک وہ زیادہ سے زیادہ پانچ بجٹ پیش کر ے اور اب تک ایسا ہی ہوا ہے۔ لیکن یہ مودی کی قیادت والی پہلی حکومت ہے جو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں چھٹا بجٹ پیش کرکے جمہوری ملک میںغیرجمہوری روایت کوجنم دیاہے۔ اس حکومت نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ حال ہی میں تین بڑی ریاستوں میں کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے اور عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف کافی ناراضگی ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل کچھ بڑے اعلانات کر دیئے جائیں تاکہ عوام ان اعلانات کے جھانسوں میں آکر ایک مرتبہ پھر بی جے پی کو اپنا ووٹ دے دیں۔یہی وجہ ہے کہ میںنے حکومت کے اس عمل کو’انتخابی رشوت‘سے تعبیرکیاہے۔
سابقہ زمینی حقائق کومدنظررکھتے ہوئے یہ بات یقینی طورپرکہی جاسکتی ہے کہ اس میں کئے گئے اعلانات بھی محض ’ جملہ ‘ ہی ثابت ہوں گے۔عبوری بجٹ کے نام پرمودی حکومت نے رائے دہندگان کو ’رشوت‘ دینے کا کام کیا ہے اور ووٹ کےلئے پیسہ بانٹنے کا کام ہوا ہے۔ بجٹ میں کسی طبقہ کو کچھ دیا نہیں گیا ہے اور ملک کے عوام کو جھنجھنا تھماکر صرف گمراہ کیا ہے۔ اس بجٹ میں کئے گئے اعلانات بھی محض ویسے ہی جملے ہیں جیسے گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ملک کے عوام کو لبھانے کےلئے بی جے پی نے کئے تھے۔ حکومت نے ساڑھے چار برس تک کچھ نہیں کیا اور عوام کو بتانے کےلئے اس پاس کچھ نہیں تھا، اس لئے اس عبوری بجٹ میں صرف ’جملہ بازی‘ کی گئی ہے۔کیونکہ اس میں کئے گئے اعلانات کو نافذ کرنے کا اس حکومت کے پاس وقت نہیں ہے۔ عام انتخابات کا اعلان ہونے والا ہے اور ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد کچھ نافذ نہیں کیا جاسکے گا۔
جس حکومت کو یہ اعتماد ہوتا کہ وہ واپس اقتدار میں آ جائے گی وہ کم از کم جمہوری اقدار اور روایت کا پاس رکھتی۔ اب چونکہ یہ شیشہ کی طرح صاف ہو گیا ہے کہ اس حکومت کو واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے، اس لئے گھبراہٹ میں یہ سارے قدم اٹھاتے ہوئے آئینی روایات کے خلاف کام کر رہی ہے۔اس بجٹ میں روزگار اور تعلیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حکومت جب انکم ٹیکس کی شرحوں کی بات کر سکتی ہے ، حکومت جب کسانوں کو اور مڈل کلاس کو راحت دینے کی اس عبوری بجٹ میں بات کر سکتی ہے تو پھر وہ نوجوانوں کے روزگار اور تعلیم کی کیوں بات نہیں کر سکتی۔ وزیر خزانہ نے تعلیمی شعبہ اور بے روزگاری کے تعلق سے کوئی بات نہیں کی۔مزدوروں کو تین ہزار روپے ماہانہ دینے کی جو بات بجٹ میں کہی گئی ہے ،حکومت کوپچھلے پانچ سالوں سے اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟۔ان اعلانات سے قومی معیشت بری طرح متاثر ہو گی۔
عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے مودی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مہنگائی پر قابو پا لیا ہے۔ پیوش گوئل نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ” مہنگائی پر قابو پانے سے عام آدمی کو راحت ملی ہے۔ حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے۔ پچھلی حکومتوں کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح پر ہماری حکومت نے قابو پا لیا ہے۔ فی الحال یہ شرح گر کر 4.6 فیصد پر پہنچ گئی ہے جو اب تک کی سب سے نچلی سطح ہے“۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت نے مہنگائی کی کمر توڑ کر ملک کے شہریوں کو بڑی راحت دی ہے یا پھر جملے بازی اور لفاظی کی ماہر حکومت یہاں بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟۔ایک ٹی وی ڈبیٹ کے دوران ’انڈیا ٹوڈے‘ کے ایڈیٹر انشومن تیواری نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ”2014 سے لے کر 2018 تک بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتیں لگاتار گرتی رہیں۔ 2018 میں کچھ مہینے خام تیل کی قیمت ضرور بڑھی لیکن پھر بعد میں نیچے آ گئی۔ حالانکہ خام تیل کی قیمتوں میں جتنی کمی آئی اس تناسب میں ہندوستان کے صارفین کو فائدہ نہیں مل سکا الٹے حکومت نے ٹیکس لگا کر قیمتوں کو تقریباً ایک ہی سطح پر بنائے رکھا“۔
اب نظر ڈالتے ہیں گھریلو بازار کی مصنوعات پر، کیا وہاں عام لوگوں کو راحت حاصل ہوئی؟ نہیں۔ دراصل جس وقت مودی حکومت نے اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا تھا تو اس وقت ہول سیل پرائل انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) میں ریکارڈ گراوٹ آ رہی تھی۔ اس گراوٹ نے یہ اشارے دیئے تھے کہ اگر حکومت نے جلد ہی اقدام نہ لئے تو لاگت سے کم قیمت پر مال بیچنے کی نوبت آ جائے گی اور جب اس طرح کی صورت حال آتی ہے تو اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے۔مصنوعات کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے صارفین قیمتوں کے مزید کم ہونے کا انتظار کرنے لگتے ہیں اور چیزوں کو خریدنا بند کر دیتے ہیں۔ بازار میں جو لوگ سرمایہ لگا چکے ہوتے ہیں انہیں وہ سرمایہ واپس نہیں مل پاتا اور نئی چیزیں بازار میں آنا بند ہو جاتی ہیں۔ مانگ کم ہونے اور بازار میں سریہ کاری نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ روزگار کم ہو جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا سلسلہ تھا جب حکومت اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپا رہی تھی کہ شرح ترقی 7 فیصد، 7.5 فیصد ہو گئی ہے، دوسری طرح مانگ میں لگاتار کمی آ رہی تھی۔ حکومت نے اسی دوران نوٹ بندی کا جابرانہ فیصلہ لے لیا جس نے مانگ کو بالکل ختم کر دیا۔اس کے بعد تو دکانداروں، چھوٹے کاروباریوں اور سب سے زیادہ کسانوں کی حالت بدترین ہو گئی۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کے واجب دام نہیں مل پائے۔آج ملک میں حالات یہ ہیں کہ آدھا درجن سے زیادہ فصلیں ایسی ہیں جن کے کسانوں کو مناسب دام نہیں مل پا رہے، آٹوموبائلز، ایوی ایشن سیکٹر، ہوٹل انڈسٹری، موبائل انڈسٹری، ریئل اسٹیٹ اور نہ جانے کتنے ایسے شعبے ہیں جو بری طرح مندی کا شکار ہیں۔اس سب کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج حکومت یہ نہیں بتا پا رہی کہ گزشتہ 4 سال میں 7.5 فیصد کی شرح ترقی رہنے کے باوجود روزگار کیوں نہیں بڑھے! پچھلے دو سالوں میں 7 فیصد کی شرح ترقی کے باوجود جی ایس ٹی کی آمدنی کیوں کم ہو رہی ہے! اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت نے عام لوگوں اور کسانوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور صرف اور صرف اپنی تعریفوں کے پل باندھتی رہی۔ دراصل مودی حکومت مانگ اور مندی کے مینجمنٹ میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اب مہنگائی سے راحت دینے کے کھوکھلے دعوے کر رہی ہے۔
عبوری بجٹ میںوزیر خزانہ پیوش گوئل نے کچھ کر کے دکھانے کا دکھاوا تو خوب کیا لیکن حقیقی صورتحال بالکل مخالف ہے۔ مودی حکومت کسان اور متوسطہ طبقہ سے وابستہ افراد کے حق میں 500 روپے مہینہ یعنی صرف 17 روپے یومیہ کی ہی راحت کی تجویز بجٹ میں پیش کر سکی ہے۔ اس بجٹ میں یہ بھی معلوم نہیں چل سکا کہ پیسہ آئے گا کہاں سے؟۔ خیر اس پر بحث بعد میں کرتے ہیں۔”پردھان منتری کسان یوجنا “ اس بجٹ کا سب سے بڑا اعلان کہا جا سکتا ہے لیکن کسانوں کے لئے یہ ناکافی ہے۔ حکومت نے ہر سال 6000 روپے تین قسطوں میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ اعلان اس امر کا اعتراف ہے کہ کسانوں کو لے کر حکومت کی تمام پالیسیاں ناکام رہی ہیں ، ایسے حالات میں 500 روپے مہینے سے بھلا کیا ملے گا؟۔ کیونکہ اخراجات لاگتیں تو آسمان پر جا رہی ہیں۔ملک میں کسانوں کی اوسط سالانہ آمدنی 77112 روپے یعنی 6426 روپے مہینہ ہے۔ اس میں 500 روپے مہینہ کے اضافہ کا یوں تو خیر مقدم ہونا چاہئے لیکن حکومت گزشتہ سالوں میں متوسط طبقہ کا بہت کچھ چھین چکی ہے۔ڈی اے پی کے دام 2014 کے 281 روپے سے بڑھ کر 295 ہو چکے ہیں۔ یوریا کی قیمت 1125 سے بڑھ کر 1450 روپے ہو چکی ہے۔ یوریا کے کٹے (بیگ) کا وزن بھی 50 کلو سے گھٹا کر 45 کلو کر دیا گیا ہے۔یوریاکی فی کلو قیمت 22.50 روپے سے بڑھ کر 32.22 روپے ہو چکی ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کھاد کے داموں میں 5 سے 26 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر یہ ہوتا ہے تو 500 روپے کی راحت سے کیا ہو جائے گا؟۔علاوہ ازیں، ڈیزل بھی کھیتی کا ایک اہم جز ہے اور گزشتہ پانچ سالوں میں اس کی قیمت نے بھی کسانوں کو خوب ر±لایا ہے۔ خام تیل کے دام یو پی اے کے دور سے آدھے پر آ گئے ہیں لیکن ڈیزل کے دام مئی 2014 کے 55.13 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 62.56 روپے فی لیٹر (امبالہ میں) ہو چکے ہیں۔ایک اوسط کسان پر قرض 4700 روپے تک بڑھ چکا ہے اور اگر 6 فیصد شرح سود جوڑا جائے تو کسان 2820 روپے سود کے طور پر بھی ادا کرتا ہے۔ تو پھر 6000 روپے سال کی مدد سے اس کا کیا بھلا ہوگا؟۔ زیادہ سے زیادہ وہ اس رقم سے اپنی فصل بیمہ کی قسط ادا کر دیگا جو اب 5153 روپے ہو چکی ہے۔کسانوں کو مودی حکومت سے اور بھی امیدیں تھیں لیکن انہیں ملا محض 17 روپے روزانہ کا بھروسہ۔ نہ تو کوئی قرض معافی ہوئی اور نہ ہی کسی ایسے منصوبہ کا اعلان جس سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ ملا تو صرف 17 رپے یومیہ کا وعدہ۔
ہاں، متوسط طبقہ ضرور کچھ خوش ہو سکتا ہے کہ اب اس کی 5 لاکھ تک کی کمائی ٹیکس فری ہوگی یعنی وزیر خزانہ نے ملک کے تین کروڑ لوگوں کو راحت دینے کے لئے 18000 کروڑ روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو صرف 6 ہزار روے مہینے کی راحت ہی متوسط طبقہ کے ٹیکس دہندگان کو حاصل ہوگی۔ یہ بھی صرف 16-17 روپے روزانہ کی راحت ہے جس سے خاندان کے لئے آدھا لیٹر دودھ تک نہیں خریدا جا سکتا۔حکومت بڑھتی بے روزگاری اور ڈیزل پٹرول کی آسمان چومتی قیمتوں سے متوسط طبقہ کو پہلے ہی چوس چکی ہے اور گزشتہ تین سالوں میں اس طبقہ سے 10 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی کر چکی ہے۔ تو ہوا یوں کہ وزیر خزانہ نے پہلے تو متوسط طبقہ سے 10 کروڑ روپے وصول کر لئے اور اب 18 ہزار کروڑ کی راحت دینے کا اعلان کر دیا۔ ”مودی نامکس“ یعنی مودی کی معاشیات اسی کو کہتے ہیں۔