عام انتخابات سے چند ماہ پہلے اور پارلیمنٹ کے آخری دن معاشی طور پر کمزور جنرل کیٹگری کے افراد کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں دس فیصد ریزریشن دینے کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا اپنے آپ میں واضح اشارہ ہے کہ اس کا مقصد اس کیٹگری کے لوگوں کو راحت پہنچانا نہیں بلکہ عام انتخابات کی تیاری ہے. مودی حکومت پورے ساڑھے چار سال کے دوران اس بات کے لیے سب سے زیادہ تنقید برداشت کرتی رہی کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق ہر سال دو کروڑ روزگار دینے کے مواقع پیدا نہیں کیے اور سرکاری ملازمتوں میں نہ صرف لگاتار تخفیف کی گئی ہے بلکہ پہلے سے پسماندہ دلتوں کے لیے ریزرو سیٹیں ہزاروں کی تعداد میں خالی پڑی ہیں۔
نریندر مودی حکومت نے غریب اعلیٰ ذات کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ محض آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے ارادے سے لیا ہے لیکن یہ اس کے ایک اور ’جملے‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ کسی بھی طبقہ کے ریزرویشن کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے لیے آئین میں سہولتیں ہوں۔ دوسرا اس کے لیے ایک سروے رپورٹ تیار کی جانی چاہیے۔ آئین کے مطابق سماجی و تعلیمی سطح پر پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دینے کے لیے پہلے کالا کالیلکر کمیشن اور اس کے بعد 1978 میں بی پی منڈل کمیشن کی تشکیل کی گئی تھی۔ ملک میں جن ریاستوں میں بھی ریزرویشن دینے کے فیصلے کیے گئے ہیں اس سے پہلے انھیں ریزرویشن دینے کی ٹھوس وجہیں بتانی پڑی ہیں۔ مہاراشٹر میں حال میں مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے کمیشن کی تشکیل کی گئی۔ لیکن مرکزی حکومت کے ذریعہ اعلیٰ ذات کو ریزرویشن دینے کے فیصلے کے پہلے اس طرح کا کوئی بنیادی دستاویز تیار نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر بھی مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔ اس دس فیصد ریزرویشن کے بعد وہ حد پار ہو جائے گی جو سپریم کورٹ نے 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہ دینے کی حد طے کی ہوئی ہے۔ آئین کی شق 16 کے مطابق کسی کا پسماندہ ہونا معاشی بنیاد پر بالکل طے نہیں ہو سکتا.ماہرین کی مانیں تو حکومت کا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
دوسری بات کہ آئین میں اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ریزرویشن غریبی مٹانے کا پروگرام نہیں مانا جاتا ہے۔ یہ ہندوستانی سماج میں ان طبقات کے لیے خصوصی موقع دینے کے نظریہ سے آئینی طور پر قابل قبول اصول ہے کہ سماج میں ذات کی بنیاد پر لوگوں کو نیچے کے درجہ میں صدیوں سے رکھا گیا ہے اور انھیں پڑھنے لکھنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ ملک کی جن ریاستوں میں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ سبھی کوششیں اب تک ناکام ہوئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ اعلیٰ ذات کو ریزرویشن آئین میں ترمیم کر کے دیا جا سکتا ہے، جب کہ کیشوانند بھارتی معاملے میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ آئین کی اصل شکل اور ڈھانچے کو چھوا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہی منڈل کمیشن کی باتوں کو نافذ کرنے کے فیصلے کے ضمن میں اندرا ساہنی معاملے میں فیصلہ سنایا تھا کہ ریزرویشن کی حد پچاس فیصد سے زیادہ نہیں کی جا سکتی ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے ارادے سے یہ فیصلہ کر رہی ہے کیونکہ 11 دسمبر کو بی جے پی کو مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جبکہ کانگریس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کو لگتا ہے کہ لوک سبھا میں فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے ووٹ بینک کا ’جگاڑ‘ نہیں بٹھایا تو انھیں 2014 کو دہرانے میں بے حد مشکلیں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران مختلف اسباب سے دلتوں، پسماندوں کی طرح اعلیٰ ذات ووٹروں کی بنیاد بھی بی جے پی سے کمزور ہوئی ہے۔ دلت ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے جب 2 اپریل 2018 کو دلت-بہوجن تنظیموں کو سڑکوں پر اتار دیا تو وہ نریندر مودی کے خلاف چلے آ رہے غصے کا دھماکہ تھا۔ نریندر مودی کی حکومت کو عدالت کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں آئین ترمیم لے آئی لیکن اعلیٰ ذات کی ذات پر مبنی تنظیموں نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات سے بی جے پی کو شکست دینے کا اعلان کر دیا۔
موجودہ سیاسی تناظر میں ان تمام حقائق سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس بل کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا حکومت کا سیاسی پینترا ہے اور کچھ نہیں. حکومت سیاسی اغراض کی بناکر یہ بل لیکر آئی ہے ۔ اس وقت ملک کے دیگر مسائل پر بحث ہونی چاہیے تھی ،لیکن عام انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے حکومت اس بل کو سیاسی آلہ کار کے طورپر استعمال کررہی ہے اور اس کا مقصد آئندہ لوک سبھا انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔۔