خالد حشم اللہ
گروپ ایڈیٹر:آزاد نیوز
تخریبی سیاست، ٹوٹتا سماجی تانا بانا، غیر محفوظ اقلیتیں، تباہی کے کگار پر معیشت، روزگار کی تلاش میں غیر مطمئن نوجوان، پریشان حال کسان،عدم تحفظ کےخوف میں صنف نسواں,تاریک مستقبل کے سائے میں طلبہ…..ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں ملک کے وزیراعظم نئے سال کے خوشگوار ماحول میں اہلیان وطن کے سامنے آتے ہیں اور ایک انٹرویو کے ذریعے عوام کے روبرو ہوتے ہیں…. ایک آس, ایک امید اور نئے جوش و آہنگ کے ساتھ ملک کے تقریبا تمام خواندہ طبقے اور حساس گروہ موبائل ہاتھ میں لئے اور ٹی وی پر چشم حیراں ٹکائے اپنے وزیراعظم کو سننے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں کہ اے کاش! نئے سال کے سنہرے موقع پر کچھ نیا سننے کو مل جائے, کچھ بات ہو جائے جس سے دل کو سکون اور مستقبل کو امید مل جائے… لیکن افسوس “کھودا پہاڑ نکلی چوہیا”…مودی کے کل کا مکمل انٹرویو سن لیں تمام پرانے قصے کو نئے لفظوں میں دہرایا گیا ہے… اس کے سوا جملوں کے علاوہ کچھ اور نہیں…
آج سیاست خرابی کے عروج پر ہے ۔ سیاست داں بے روک ٹوک بد کلامی اور بد تمیزی کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ قومی معیشت بہت خراب حال میں ہے ، بے روزگار نوجوانوں کا طبقہ آمدنی کے مواقع کا انتظار کر رہا ہے، غصے سے بھرے کسان اپنی پیداوار کی معقول قیمت کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اقلیتوں کو غیر محفوظ ہونے کا خوف ہے ، مذہبی جنون میں بدمست تخریب کار موجودہ صورتحال کو مزید خراب کرنے میں لگے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں میں ملک کا سماجی تانا بانا اس قدر تار تار ہو گیا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے میں ایک لمبا وقت درکار ہے ۔اس وقت جمہوری اداروں کی ساکھ سب سے نچلی سطح پر ہے۔ جانچ ایجنسیوں کی روح خطرے میں ہے, عدالتی نظام سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ ایسی صورتحال میں وزیراعظم سے نئے سال پر عوام کو, کسانوں کو, نوجوانوں کو, خواتین کو, طلبہ کو, اقلیتوں اور ملک کے دیگر پریشان حال طبقے کو وعدوں کی نہیں نتائج کی امید تھی,سپنوں کی نہیں حقیقت کی آس میں ملک کا نوجوان اور حساس طبقہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا.
ہم سال بھر کہانی پڑھتے اور سنتے ہیں, فلمیں دیکھتے اور ڈراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں.کل نئے سال پر بھی ہم نے پورا دن سرمستی میں گزاردیا,دوستوں کے ساتھ خوب ناچے جھومے اور جم کر شور شرابے کئے, لیکن شام کو ٹی وی کے سامنے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنے وزیراعظم کو سننے بیٹھے تھے, ذہن و دماغ تمام واہیات سے ہٹ کر صرف آپ کی باتوں کی طرف تھا, امید تھی آج نئے سال پر آپ کے منہ سے صرف “جملہ ” نہیں نکلنے گا, پھر سے فقط “وعدے” نہیں ہوں گے, میں, مجھے اور میرا سے نکل کر ہم, ہمیں اور ہمارا کی طرف آپ کی بات مڑ جائے گی,پچھلی سرکاروں کو لعن طعن کرنے کے بجائے اپنی سرکار کے وعدہ ایفا پر بحث ہوگی, دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنی سرکار کا محاسبہ کیا جائے گا, پارٹی کی جگہ ملک کے عوام کی فکر کی جائے گی, پریشان حال کسانوں کو راحت دی جائے گی, بے روزگاروں کو روزگار دیا جائے گا, کسانوں کو خودکشی سے روکنے کیلئے ان کی خوشی کی بات کی جائے گی, خواتین اور اقلیتوں کو تحفظ کا احساس دلایا جائے گا, مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا… ہم وزیراعظم کی تقریر سن رہے تھے لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے فلم کا ہیرو کسی ہدایتکار کا لکھا ہوا اسکرپٹ ڈائیلاگ کی شکل میں سنا رہا ہو یا پروگرام میں کوئی کہانی کار کہانی سنا رہا ہو, پورا انداز وہی تھا جو کسی کہانی کار یا ہیرو کا ہوتا ہے… وہی سب کچھ ہوا جو سال بھر ہوتا ہے, نئے سال پر کچھ بھی نیا نہیں ہوا… نئے سال پر دن بھر کی سرمستی ڈیڑھ گھنٹے کی واہیات فلم (انٹرویو) دیکھ کر ختم ہو گئی,نئے سال کے اچھے ہونے کی امید تھی, لیکن حیف کہ یہ نئی امید بھی پرانی امید کی طرح بس امید بن کر ہی رہ گئی اور جشن کی شکل میں کچھ رہ گیا تو فقط افسوس, افسوس اور بس افسوس…