خالد حشم اللہ
گروپ ایڈیٹر
جس وقت ملک کئی اہم مسائل سے جوجھ رہا ہے اور عوام نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی کر دیا ہے۔ آج جس وقت کسان اپنی زرعی پیدوار کو لے کر پریشان ہے، جس وقت ملک کا نوجوان بڑھتی بے روزگاری سے پریشان ہے، ملک کا تاجر اس لئے پریشان ہے کہ اس کا کاروبار ختم ہو رہا ہے ، جس وقت بینکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ کئی بینکوں کا انضمام کرنا پڑ رہا ہے،آج سی بی آئی پر سوال کھڑے ہوئے ہیں ، آج آر بی آئی کی شبیہ کو لے کر تشویش پائی جا رہی ہے، ایسے ماحول میں حکومت نے تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس بات پر توجہ دی کہ طلاق ثلاثہ، جس کو حزب اختلاف کے ارکان پارلیمانی کمیٹی کو سونپنا چاہتے ہیں اس کو قانون بنانے کے لئے لوک سبھا میں اپنے نمبروں کی طاقت پر منظور کروا یا جائے۔
طلاق ثلاثہ بل کولوک سبھا میں’غیرضروری عجلت‘ کے ساتھ منظورکروانابی جے پی کا انتخابی حربہ کے سواکچھ اورنہیںہوسکتا۔بی جے پی کایہ استدلال کہ” وہ مسلم خواتین کے حقوق کی پاسبانی کیلئے یہ قدم اٹھا رہی ہے“ پریقین کئے جانے کے قابل نہیں۔طلاق ثلاثہ بل کیلئے جوقانون بنایا جارہاہے، اس کوقائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے تمام متعلقہ فریقین اورماہرین کی آراءلینے کے بجائے یہ جانتے ہوئے بھی کہ راجیہ سبھا میں اس کا منظورہونا ممکن ہی نہیں، اس طرح منظورکیا جانا سیاست نہیں تواورکیا ہے؟۔قابل افسوس پہلویہ بھی ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈطلاق ثلاثہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری اورفرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام رہا۔ بورڈ کوشروع سے ہی اس معاملے پراجتماعی رائے قائم کرنے کے لئے دیگرمسالک کو ساتھ لے کرچلنا چاہئے تھا اورزیربحث طریقہ طلاق سے ہونے والے مسلم خواتین کے استحصال پرقابوپانے کیلئے ضروری، انتظامی واہتمامی اصلاحات کے ساتھ ایک مناسب نکاح نامہ تجویزکرلیا جانا چاہئے تھا۔
طلاقِ ثلاثہ کے خلاف بل کی منظوری شریعت اسلامی کے قانون میں مداخلت ہے ، اس قانون سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ حکمراں اپنے اقتدار اور اس کی بقا وتحفظ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں،خصوصی بی جے پی لیڈران۔ اس کے لئے انہیں کسی حد کو پھاند جانے اور بڑی سے بڑی حرمت کو توڑ ڈالنے میں بھی کوئی اجتناب نہیں۔تین طلاق بل کو بنانے کے لئے حکومت نے نہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈسے رائے لی اور نہ کسی مسلم تنظیم اور علماءکرام سے کوئی ربط رکھا اور نہ ہی اسے سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کیا گیا، یہ حکومت کی آمریت کی واضح مثال ہے ۔ تین طلاق بل میں بعض دفعات ایسے ہیں جن میں تضاد پایا جاتا ہے اور قانونی پیچیدگیاں اور نقائص موجود ہیں۔اس بل کی منظوری بنیادی حقوق کے خلاف ، غیر دستوری وغیر جمہوری نظیر ہے ۔حکومت نے غیر جمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے اور جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اس کو منظوری دے دی ہے،جسے صرف سیاسی اورانتخابی سازش کے تحت عمل میںلایاگیاہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت اس ملک کے مسلمانوں پر جبراً تین طلاق قانون تھوپنا چاہتی ہے ، اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ، حکومت کے ا قتدار کے ساڑھے چار سالوں میں مسلمانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ، جگہ جگہ ہجومی تشدد کے ذریعہ بے قصور مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔چند خواتین جن کاشریعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اس فیصلہ سے خوش ہوسکتی ہیں،جبکہ اس قانون سے مسلم خواتین کے ساتھ مزید نا انصافی کا اندیشہ ہے اور حکومت مسلم خواتین سے انصاف کا ڈھونگ رچا رہی ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ جہاں ایک طرف اپنی ناکامیوں کا اعتراف کیاجائے وہیں دوسری طرف باہمی اشتراک کی بنیاد پرایک ایسی حکمت عملی اورلائحہ عمل کی طرف بڑھاجائے، جس سے اس طرح کی آئندہ کسی بھی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔
ستمبر میں طلاق ثلاثہ پر حکومت آڑڈیننس لے آئی تھی اور اس کو قانون بنانا کے لئے حکومت کو ایک آئینی تقاضہ پورا کرانا ہی ہوگا کہ وہ اس کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے۔ اس لئے کل جو حکومت نے کیا وہ اس کی اس ”ہٹ دھرمی“ کی عکاسی کرتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اس کو قانونی شکل دے گی۔ حکومت کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس لئے لوک سبھا میں منظور ہونے کے باوجود یہ راجیہ سبھا میں پاس نہیں ہوگا کیونکہ حزب اختلاف کا مطالبہ رہا ہے کہ اس کو جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا جائے، جہاں اس پر تفصیل سے غور وفکرہو۔ راجیہ سبھا میں اپنے نمبروں کو جانتے ہوئے اگر حکومت اس کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ہٹ دھرمی کرتی ہے تو ایک بات صاف ہے کہ وہ اس کو عام انتخابات میں مدعا بنانا چاہتی ہے اور وہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والی حزب اختلاف مسلم خواتین کے حقوق کے خلاف ہے۔ اس سے وہ اکثریتی فرقہ کے جزبات کو بھی بھڑکائے گی اور بنیادی عوامی مدعوں سے لوگوں کا ذہن ہٹانے کی ہر ممکن کوشش بھی کرے گی۔
گزشتہ سال اگست ماہ میں پانچ رکنی سپریم کورٹ کی بنچ نے طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور واضح رہے کہ یہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا بلکہ اس میں تین جج حامی تھے تو دو کی علیحدہ رائے تھی۔ بہرحال مسلم سماج نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے قبول تو کیا تھا مگر عوامی طور پر اس کا استقبال اس لئے نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ان کو اس میں بے عزتی محسوس ہو رہی تھی۔ اس بے عزتی کے احساس کے لئے کل ہند مسلم پرسنل لاءبورڈ ذمہ دار ہے کیونکہ ایک طرف تو عدالت میں اس نے کہا تھا کہ ہم طلاق ثلاثہ کے خلاف مسلمانوں میں بیداری مہم چلا رہے ہیں ،ساتھ میں وہ اس کے خلاف دستخطی مہم بھی چلاتا رہا۔ بورڈ نے کسی بھی وقت اس جرا¿ت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ اعلانیہ اس بات کو کہتا کہ ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق دینا غلط اور طلاق بدعت ہے۔ ویسے ترکی میں1926، مصر میں 1929، تیونیشیا میں 1955، پاکستان میں 1961، بنگلہ دیش میں 1971 اور سری لنکا میں 2006 میں اس قانون کو ختم کرد یا گیا تھا۔ ان ممالک کے علاوہ بھی کئی ممالک میں یہ رائج نہیں ہے، اس لئے اس کے ختم کئے جانے پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ ضرور اس کی مخالفت کر تا رہا ہے اور کرے گا ، اور اس کا فائدہ مسلمانوں کو تو اب نہیں ہوگا ،البتہ مسلم مخالف قوتوں کو ضرور فائدہ ہو گا۔اس عمل کو جرم کے زمرے میں ڈال کر اس قانون کے غلط استعمال کے لئے راستے کھول دئیے ہیں۔ جس طرح جہیز مخالف قانون کا غلط استعمال ہوا اسی طرح اس قانون کا بھی استعمال لڑکے والوں کو پریشان کرنے کے لئے کئے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور اس کے لئے ہم خود ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے اپنا کام کیا نہیں، اور شریعت میں مداخلت کی گنجائش پولس اور عدالت کو فراہم کر دی۔
کسی بھی دور میں ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق دے کر اپنی شریک حیات کو علیحدہ کر دینا کسی بھی رو سے درست نہیں تھا۔ جن حالا ت میں بھی یہ چلن میں آیا ہو لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ علیحدگی کے لئے طلاق احسن کا ایک طریقہ شریعت میں موجود ہے جس میں ایک ساتھ کتنی مرتبہ بھی طلاق دیں اس کو ایک ہی شمار کیا جائے گا اور عدت کی مدت کے دوران رجوع کرنے کا حق ہوگا جس کے لئے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو گا۔ اگر یہ شخص رجوع کرنے کے بعد دوبارہ طلاق دیتا ہے تو اس کو دوسری طلاق شمار کیا جائے گا اور ایسے ہی تیسری مرتبہ لیکن تین مرتبہ کے بعد رجوع کا کوئی حق نہیں رہے گا۔
اسلام کی بہت ساری خوبیوں میں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مذہب نے خواتین کو بہت حقوق دیئے ہیں اور یہ حقوق اس وقت دیئے جب دنیا کی کسی بھی تہذیب نے نہیں دیئے تھے۔ حکومت کو جہاں اس مدعے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے ،وہیں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کو بھی مسلمانوں کو درپیش مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اس کے ضروری حل نکالنے چاہئے۔ حکومت اگر اس کو سیاسی مدعا نہ بنا کر مسلم مذہبی رہنماو¿ ں سے مشورہ کر کے اس میں ضروری تجاویز پیش کر کے اچھے ماحول میں ایک اچھا قانون بناتی تو سب اس کی تعریف کرتے۔ حکومت کی ہٹ دھرمی ، بغیر مشورہ کے اپنی مرضی سے اور اپنی ضرورت کے وقت کی مناسبت سے مسلم خواتین کے جزبات سے کھیلنا کسی بھی طرح دور اندیشی اور دانشمندی نہیں ہے۔ انتخابا ت سے پہلے یہ سب کرنے کا مطلب صاف ہے کہ حکومت کی نگاہیں کہیں پر ہیں اور نشانہ کہیں پر ہے اور اس میں خلوص بالکل نہیں ہے۔