بہاریوں سے اتنی نفرت کیوں؟

خالد حشم اللہ
(گروپ ایڈیٹر:آزاد نیوز)

عادت کے مطابق صبح آنکھ کھلتے ہی ہر کام سے پہلے موبائل کی اسکرین پر نظر پڑی۔ واٹس اپ فیس بک کے تفریحی میسیجز کے ساتھ ساتھ کچھ اخباری  سائٹ کی خبربیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک خبر پر نظر تھم سی گئی۔’’خوف میں شمالی ہند کے لوگ،گجرات سے اب تک بیس ہزار لوگوں کی نقل مکانی‘‘۔ اس ہیڈنگ نے خوابیدہ ذہن و دماغ کو یکدم سے چونکا دیا۔جیسے جیسے خبر کی سطروں پر نظر دوڑتی گئی حیرانی بڑھتی گئی۔ریاست کے وزیراعلی وجے روپانی کے اس دعوے کے بیچ کہ ’’گزشتہ ۴۸ گھنٹوں میں کوئی بھی واردات نہیں ہوئی ہے‘‘ ۴۷ شمالی ہند کے لوگوں کو یرغمال بنانے کی خبر سرکار کے اس دعوے کی پول کھول رہی ہے۔اسی بیچ کل شام کو ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آیا جہاں پر کچھ لوگ شمالی ہند کے باشندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اس ویڈیو نے حساس دل انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی سرکار اور گجراتی تعصب پسند لوگوں کی مذمت کی جارہی ہے۔

گجرات میں شمالی ہند(بہار-یوپی) کے باشندوں کے خلاف مسلسل جاری حملے علاقائی منافرت اورنفرت انگیزبرتاؤ کی گواہی دے رہے ہیں۔اس معاملے کوحل کرنے کے بجائے سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کوذمہ دار ٹھہرانے کاسیاسی پینترا شروع کردیا ہے ۔کسی بھی ریاستی باشندے کو ملک کے کسی بھی علاقے میں رہنے کاپورا آئینی حق ہے ۔ کسی بھی جرم کیلئے قصور واروں کو سزا ملنی چاہئے لیکن اس کے نام پر سیاست چمکانے کے لئے پورے ملک ، گروپ ، ذات یا ریاست پر الزام لگانا کہاں تک مناسب ہے؟ ۔بلکہ یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ علاقے اورزبان کے نام پرسیاست کرناجمہوری طرزحکومت کے پاسدارکسی بھی ملک میں نہ صرف غلط ہے ،بلکہ ہمارے آئین کی خلاف ورزی اورتوہین بھی ہے ۔ان دنوں علاقائی اورلسانی سیاست کے پیش نظر بہار سمیت شمالی ہند کے لوگوں کو گجرات سے دربدر کرنے کاسلسلہ زوروں پر ہے ۔ حالانکہ گجرات میں آج جو ترقی نظر آرہی ہے وہ گجرات ہی نہیں پورے ملک کے لوگوں نے اپنے خون پسینے سے سینچ کر کیا ہے ۔

کسی بھی علاقے کی ترقی اورعروج میں دوسرے علاقوں کابھی ہاتھ ہوتاہے،اس لحاظ سے کسی بھی علاقے کے باشندوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرناکسی بھی صورت میں جائزعمل نہیں۔گجرات ہی کیوں ملک کا کوئی بھی علاقہ ایک دوسرے پر منحصر ہے ۔ آخرکیاوجہ ہے کہ گجرات کے لوگوں کو شمالی ہند کے لوگوں خاص کر بہاریوں سے اتنی نفرت ہے ؟۔کیا گجرات کوگجرات بنانے میں بہار اور یوپی کے لوگوں کاکوئی ہاتھ نہیں؟. کیا ان کا گجرات کی تعمیر و ترقی میں کوئی عمل دخل نہیں؟۔ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو ایسی سیاست سے پرہیز کرنا چاہئے جوعلاقائی اورلسانی نفرت انگیزی پرمنحصر ہو. اس سے ملک کو، ریاست کو، عوام کو اور خود لیڈروں کو وقتی اورچند سالوں کیلئے ایک چھوٹی سی کرسی کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں ۔ایسی منافرت بھری سیاست سے نہ صرف گجرات بلکہ پورے ملک اورعالم میں ہندوستان اور ہمارے سیاسی لیڈران کے وقار میں کمی آئے گی اور ہماری جگ ہنسائی بھی ہوگی ۔

ملک کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے والے افراد اس علاقے کابوجھ نہیں ہوتے ، بلکہ اس علاقے کے بوجھ کو اپنے سر اٹھاکر اس کی تعمیروترقی میں اہم رول اداکر کرتے ہیں.گجرات کے لوگوں اورسیاسی لیڈروں کو یہ سوچناچاہئے کہ اگر یوپی اوربہار کے لوگ کام کرنابند کر دیں تو گجرات ہی کیا ممبئی اوردہلی جیسے بڑے اورعالمی شہرت یافتہ شہروں کابھی کام کاج ٹھپ ہو جائے گا۔یہ بہت ہی حیرت انگیز،تعجب خیز اورشرمناک بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈران لگاتار شمالی ہندوستان کے باشندوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ، ریلیاں کر رہے ہیں ، لیکن افسوس کہ معاملے کی تہہ تک جاکرکسی ایک مجرم کوسزاسنانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اوروہاں کے متشدد قسم کے لوگ یوپی اوربہارکے لوگوں کوصوبہ سے دربدرکرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ان کوشاید یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ان کی اس حرکت اورعمل سے نہ صرف ان کانام بدنام ہورہا ہے بلکہ گجرات کے ساتھ ساتھ ملک کے وقار اورجمہوری اقدار پربھی بدنما داغ لگ رہاہے۔

علاقائی اورلسانی سیاست کوفروغ دینے والے اورملک میں منافرت کاماحول بنانے والے ایسے لیڈروں کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کیاجانا ہمارے ملک کے جمہوری اقدار پرسوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے ۔یہ نہایت ہی افسوسناک خبرہے کہ وہاں کے سیاسی متشدد قسم کے لوگوں کی مجرمانہ کارروائی کی وجہ سے ڈرے سہمے ہندوستانی گجرات سے بھاگ رہے ہیں،اس نقل مکانی پراہل گجرات کوماتم مناناچاہئے،لیکن افسوس کہ ’الٹی ہی چال چلتے ہیں دوانگان عشق‘۔ واضح رہے کہ گجرات کے ہمت نگر میں گذشتہ ہفتہ 14 ماہ کی ایک بچی سے عصمت دری کے معاملے میں بہار کے ایک شخص کی گرفتاری کے بعد ریاست کے کئی اضلاع میں رہنے والے شمالی ہند خاص کر بہار ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے لوگوں کو نشانہ بنایاجارہاہے ۔ اب تک راجدھانی گاندھی نگر ، احمد آباد، پاٹن ، صابر کانٹھا اور مہسانہ سے سینکڑوں تارکین وطن اپنا کام کاج چھوڑ کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔اوراس معاملے کوحل کرکے رفع دفع کرنے کے بجائے سیاسی ،متشدد اور علاقائی تعصب کوفروغ دینے والے افراد اسے مزید کھینچ کر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں اورساتھ ہی ہماری جمہوری اورآئینی اقدار کو داغدارکرنے پرتلے ہوئے ہیں.

SHARE
Previous articleفیس بک نے کرایا ایک جدید ڈیوائیس کا تعارف۔
Next articleرام مندر بناؤ نہیں تو رام نام ستیہ

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here