باپو کی سالگرہ پر خاص
“بہت سی وجوہات ہیں جن کے لئے میں مرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن ایسی کوئی وجہ نہیں جن کے لئے میں قتل کرنے کے لئے تیار ہوں”َ
مگر افسوس کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے ٹھیک 21 سال بعد انسانی جانوں کی اتنی قدر کرنے والے عظیم انسان کو 30جنوری 1948 کی شام دہلی میں البقرق روڈ پر واقع بِرلا ہاؤس میں (جو اب گاندھی سمرتی کے نام سے جانا جاتا ہے) دوران مجلس صرف اس لئے بھن دیا گیا کہ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کو مساوی حقوق دینے کی حمایت کی تھی۔۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہر سال 2اکتوبر یعنی ہندوستان کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کوعالمی یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کیلئے قرارداد کی 143 رکن ممالک نے حمایت کی تھی. اس دن کو منانے کا مقصد مختلف ممالک،اقوام کے درمیان قیام امن ،قوت برداشت کا فروغ اور عدم تشدد کے جذبات کو عام کرنا ہے ،تاکہ عالمی مسائل اور تنازعات کو باہمی گفت و شنید سے حل کیا جا سکے۔۔
گاندھی پر ريسرچ کرنے والے امريکی مائيکل نيگلر کے مطابق گاندھی کے نظريات متاثر کن، تضادات سے خالی، پرزوراوراس ليے آج بھی جديد ہيں کیونکہ: ’’اُن ميں وقت کے دھارے کے خلاف چلنے کی ہمت تھی۔ انہيں ايک پرانی، بھلا دی جانے والی دانشمندی کو اس طرح زندہ کرنے ميں کاميابی ہوئی کہ اُسے ہمارے جديد دور ميں بھی استعمال کيا جا سکتا تھا اور وہ سب کے ليے قابل فہم بھی تھی۔ اس طرح اُنہوں نے بنی نوع انسان کی دريافتوں ميں سے ايک بڑی دريافت کی، يعنی يہ کہ عدم تشدد ايک ايسا ہتھيار ہے، جو ہر شخص ہرصورتحال ميں استعمال ميں لا سکتا ہے۔”…مہاتما گاندھی ایک عہدساز بلکہ تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے، اُنہوں نے اپنے قول وفعل ، مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہ دکھائی۔ گاندھی جی کے اہم کارناموں میں قومی اتحاد ، فرقہ وارانہ خیرسگالی، عدم تشدد اور اہنسا کا فلسفہ اِس قابل ہے کہ اُن پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور باہر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو دور کیا جا سکتا ہے۔
گاندھی جی کا مسلک تھا ’’سرو دھرم سمبھاؤ‘‘ یعنی تمام مذہبوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی یا ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا اصول جو آج بھی مختلف گروہوں، قوموں اور ملکوں کے درمیان ہر مسئلہ کے منصفانہ حل اور پائیدار امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس اصول کا موجودہ دور سب سے زیادہ متقاضی ہے..موجودہ ہندوستان کا منظر نامہ ہمیں گاندھی کی بہت یاد دلاتا ہے اور عدم تشدد, عدم تحفظ اور ضبط نفس کے گاندھیائی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا کرتا ہے… مہاتما گاندھی کی تعليمات کی تين بنياديں ہيں: عدم تشدد (آہنسا)، سچائی پر مضبوطی سے جمے رہنا (ستياگرہ) اور انفرادی سياسی حق رائے دہی کی آزادی (سواراج)…. اگر صرف ان تین اصولوں پر ہی عمل در آمد کر لیا جائے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام اقوام عالم کی تصویر بدل سکتی ہے۔
گاندھی کے بقول سچائی کبھی مرتی نہیں. انہوں نے لکھا ہے کہ “ميں جو کچھ ديکھتا ہوں وہ يہ ہے کہ زندگی موت کی آغوش ميں، سچائی جھوٹ کے درميان اور روشنی اندھيرے کے بيچ ميں اپنا وجود قائم رکھتی ہے” اور سچ یہ ہے کہ گاندھی آج بھی زندہ ہیں۔
اپنی سوانحی تصنیف:
The story of my experiment with truth
میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
“میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی اور اہم جنگ اپنے نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کیلئے لڑی”…
نفسیاتی خوف کا قتل کرنے اور تشدد کے آگے سر خم کرنے والے مہاتما گاندھی کو ان کی سالگرہ پر ہمارا ادارہ خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔