‘ہے جرم ضعیفی کی سزا ‘شریعت میں مداخلت ’

انوارالحق بیگ 

پہلے قوانین میں فطرت میں مداخلت کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیا گیا اور چند ہی دنوں میں مسلمانوں کے عائلی قوانین میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاق پر تین سال کی سزا مقرر کردی گئی، طرفہ تماشہ یہ کہ طلاق نہیں ہوئی لیکن مسلم مرد کو اپنے نا کردہ گناہ کی سزا ہوگئی، یہ کون سا قانون ہے؟ ‘مل رہی ہے مجھے ناکردہ گناہوں کی سزا ’

اور ان تین سالوں میں اس عورت اور اس کےبچوں کا کیا ہوگا؟ کون اٹھائے گا خرچ نان و نفقہ کی ذمہ داری کس کی ہوگی؟ جب وہ جیل میں ہوگا تو کس طرح یہ ذمہ داری اٹھا سکتا ہے؟ ان تین سالوں میں اس عورت سے اس شخص کا میا ں بیوی ہی کا تعلق رہے گا یا کچھ اور؟ بعد جب وہ شخص جیل سےواپس آئےگا تو اس عورت کے ساتھ اس کا کیا تعلق رہے گا ، بیوی ہی رہے گی یا کچھ اور؟

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

اب اگر مگر کی بحث بے جا ہے اور یہ مشورہ بھی دینا نا معقول ہے کہ مسلم مردتین طلاق دے ہی نہیں تو کسی کو جیل نہیں ہوگی ، اس طرح حکومت کی چال نا کام ثابت ہو گی۔ یہ کوئی ایک دویا چند دنوں کی بات نہیں ہے بلکہ کسی جمہوری ملک میں جب قانون بن جاتا ہے تو اسے ختم کروانا اس ملک کی اقلیتوں لئے نا ممکن ہوجاتا ہے۔ اور اسی کے تحت وہ جینا سیکھ لیتی ہے، چاہے وہ شریعت مخالف ہو یا شریعت میں مداخلت ۔ جہیز کی روک تھام سے متعلق قانون کی طرح کیا اس بھی بڑے پیمانے پر غلط استعمال نہیں ہوگا؟ جہیز قانون کاصحیح کم ، غلط استعمال زیادہ ہوتا ہے، ورنہ آج جہیز کی رسم ختم ہوگئی ہوتی۔ اور یہ خاندانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے زیادہ استعمال ہوتا ۔ اُسی طرح بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ یہ کالا قانون بلیک میلینگ کے لئے بہت نر م چارا ہے۔

اب مسلم پرسنل لا بورڈ کو مورد الزام ٹھرانا یا یہ مشورے دینا کہ بورڈ اگر ایسا کرتی تو یہ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ ، انتہائی غیر معقول باتیں ہیں ۔ سامنے والے(حکومت ) نے جب یہ ٹھان ہی لی کہ ہرحال میں اسلامی قوانین میں مداخلت کرکے مسلمانوں کر حراساں کرنا ہے۔ اور وہ اس نے کر کے بھی دکھا دیا۔ چاہے آپ الٹے لٹک جاتے یا، سر کے بل چلنے لگتے ، سب لا حاصل تھا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ‘تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے  ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات’ ۔

پہلی بات یہ کہ حکومت کس طرح ایسی چیز طے کرسکتی ، جس کا راست تعلق دوسرے کے مذہبی اور عائلی امور سے ہے اور دستور و عدالت اعظمی نے مذہبی اکائیوں کو پرسنل لا کے تحت عائلی امور انجام دینے کی آزادی دی ہے۔ اور یہ قانون مسلمانوں کے تمام مسالک اور گروہوں کے خلاف ہے، اور نا ہی صنفی عدل کا قیام جس کی حکومت بات کر رہی ہے، اس سے ممکن ہے۔

دوسری بات، چلیے ملک کے ہی قانون کو لے لیجئے ، تو اس کے تحت بھی شادی بیاہ، طلاق وغیرہ کا تعلق شہری مقدمات (civil suits) سے ہے، اس سلسلے میں مالی جرمانہ یا بہت سے بہت چھ ماہ تک کی قید ہے۔تب ی تو یہ تین سال کی سزا تو خود اپنے آپ میں ملک کے قوانین سے ٹکرا رہی ہے۔ شادی ایک معاہدہ (contract)ہے، اسے ختم کرنے کے لئے تین سال کی سزا مقرر کی گئی ہے؟ یہ تو دینا کے کسی قانون میں بھی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔

تیسری اور آخری بات، چونکہ حکومت اسے راجیہ سبھا میں منظور نہیں کراپائی تو آرڈیننس کا پچھلا راستہ(back door) اختیار کیا ہے ۔ اورایک آرڈیننس مدت چھ ماہ ہوتی ہے، چھ مہینے بعد ملک کے جنرل انتخابات بھی ہونے ہیں۔جس کے خلاف قانونی لڑائی لڑی جانی چاہیے، ساتھ ہی شرعی و عائلی قوانین کے تئیں عوامی بیداری بھی پیدا کرنی چاہیے۔

 

SHARE
Previous articleایک فنکار کے طور پربہت کچھ سیکھا: ہما قریشی
Next articleبودھ گیا دھماکہ معاملہ: ایس ٹی ایف کے ہاتھ لگاایک اور دہشت گرد

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here