انسانیت کا تقاضا

انظار احمد صادق

انسانیت کا تقاضا

(افسانہ)

انظاراحمدصادق

ساحل : ارے یہ دیکھو!
امجد : کیا ہوا بھئی؟
ساحل : یہ دیکھو، واٹس ایپ پر یہ کیا میسج آیا ہے؟
امجد : کوئی خاص بات ہے کیا؟
ساحل : دو دو مسلمانوں کو شرپسندوں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔
امجد : حد ہوگئی، اب بہت ہوگیا،ایسا کرو!
ساحل : ہاں بولو!
امجد : آج ہم لوگ بھی نپٹ ہی لیتے ہیں، چلو دو چار کو ہم بھی گرا ڈالتے ہیں۔
ساحل : ہاں ہاں….چلو! ابھی چلو! آج ہم بھی دکھا ہی دیتے ہیں۔
(ساحل اور امجد نکل ہی رہے تھے کہ ان کے ایک تیسرے ساتھی احمد سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔)
احمد : کیا بات ہے بھئی! تم دونوں کے تیور کچھ زیادہ ہی بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں، خیرت تو؟
ساحل: پتا نہیں تم کس دنیا میں رہتے ہو؟
احمد : بتاؤ تو سہی ، میں بھی جانوں کہ آخر ہوا کیا ہے؟
ساحل : کیا ہوا ہے؟ آج پھر ہمارے دو مسلم بھائیوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ظالموں نے۔ آج توہم لوگ بھی بتا ہی دیں گے۔ چلو امجد چلو!اس کے چکر میں مت پڑو۔
امجد : ہاں ہاں چلو!
احمد : ارے بھئی سنو تو سہی! اتنے جذباتی کیوں ہورہے ہو؟
ساحل : تو کیا کریں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے ظلم سہتے رہیں؟
احمد: یہ میں نے کب کہا کہ ظلم سہتے رہو اور کچھہ نہ کرو۔
امجد : تو پھر کیوں روک رہے ہو اور کیا کہنا چاہتے ہو؟
احمد : میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس سے نپٹنے جارہے ہو جن لوگوں نے دو مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ہے؟
ساحل : اتنا موقع کہاں ہے کہ اس کمینے کو تلاش کرنے جائیں۔
احمد : تو پھر؟
ساحل: تو پھر کیا؟ جارہے ہیں ، ان میں سے ہم لوگوں کو بھی جو ملے گا مار ڈالیں گے اور بدلہ لے کر چھوڑیں گے۔
احمد : تم لوگوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟ تم کو پتا بھی ہے کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے؟
ساحل : کیا ہوگا؟
احمد : بھئی مرے! دنگا بھڑک اٹھے گا، ہر طرف فساد برپا ہوجائے گا، افرا تفرای کی شکل پیدا ہوجائے گی،امن و امان غارت ہوجائے گا، ہسپتالوں میںتالے پڑجائیں گے، اسکول بند ہوجائیں گے، مارکیٹنگ رُک جائے گی،دکانیں بند ہوجائیں گی، لوگوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہوجائے گا، مسافر سفر میں ہراساں کیے جائیں گے اورکرفیو لگا دی جائے گی۔ پھر یہ کہ یہ کہاں کی عقل مندی کی بات ہوگی کہ غلطی کوئی اور کرے اور بدلہ کسی اور سے لیا جائے؟
ساحل: تو کیا ہم یہاں تمہارا بزدلانہ بھاشن سنیں۔
احمد : میرے عزیز بھائی! ہم مسلمان ہیں۔ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں۔ قرآن مجید ہمارے لیے ہدایت و رہنما ئی کی کتاب ہے۔ قرآن کہتا ہے : ”جس نے ایک انسان کو قتل ہونے سے بچا لیا گویا اس نے پوری انسانیت کی حفاظت کی۔“
رہ گئی بات بدلہ لینے کی توہم اس سے لیں گے نا جس نے زیادتی کی ہے۔ کسی بے قصور اور مظلوم کی جان لینے والے بہادر نہیں بزدل ہوتے ہیں۔جن لوگوں نے ہمارے دو مسلم بھائیوں کے ساتھ ظلم کیا ہے ہم ان کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کریں گے، چند باشعور افراد کے ساتھ مل کر مظلوم کو انصاف دلائیں گے۔ آئندہ پھر کسی کے ساتھ ایسا ناروا سلوک نہ کیا جائے اس سلسلے میں ہم حکمت عملی سے کام لیں گے اورایک مضبوط لائحہ تیار کریں گے۔ مگر ہم ایسا ہرگز نہ سوچیں کہ کسی نے ہمارے دو آدمیوں کو مار ڈالا ہے تو ہم بھی ان کے کسی دوسرے دو بے قصور کو مار ڈالیں۔
(اسی درمیان احمد کے موبائل پر کال آتی ہے۔)
ہیلو ہیلو…. احمد !
احمد : ہاں بولیے کون؟ میں احمد بول رہا ہوں۔
ہاں احمد ! میں شاداب !
احمد : بولو شاداب!
شاداب : ایک آدمی روڈ اکسیڈنٹ میں حادثے کا شکار ہوگیا ہے، اسے ایک یونیٹ بلڈ کی ضرورت ہے۔
احمد : جس کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے وہ کون ہے؟ اس کا نام کیا ہے؟
شاداب : کون ہے؟ یہ تو نہیں معلوم، اس کی جیب سے جو آدھار کارڈ نکلا ہے، اس میں اس کا نام شنکر داس لکھا ہوا ہے۔
احمد : تھوڑی دیر انتظار کرو میں فوراًپہنچ رہا ہوں۔
(احمد نے ساحل اور امجد سے کہا : ایسا ہے کہ تم دونوں بھی میرے ساتھ چلو، اس کے بعد پھر اس سلسلے میں ہم لوگو کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔)
ساحل : احمد! یہ کیا کرنے جارہے ہو؟ ارے وہ مررہا ہے تو مرنے دو، ہم لوگ کیوں بلڈ دیں گے، یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ وہ ہمارا خون کرے اور ہم ان کو خون دیں؟
احمد : دیکھو ساحل! ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ لاکھ عداوت کرلے، مگر ہم اپنی محبت اور انسانیت کے تقاضے نہیں بھول سکتے۔
(احمد بلا تاخیر ساحل اور امجد کو لے کر ہسپتال پہنچا۔ شنکر سے احمد کا بلڈ گروپ میچ کھا گیا، اس نے فوراً اپنا خون عطیہ کیا۔ شنکر کی جان بچ گئی۔)
احمد نے شاداب سے کہا :
” ذرا دیکھو تو اس کی جیب میں اس کے گھر کا کوئی رابطہ نمبر وغیرہ ہے؟“
شاداب: (دیکھنے کے بعد) ہاں ہے۔
(احمد نے شنکر کے نمبر پر کال لگائی، کال اس کے بھائی نے ریسو کی، جس نے اپنا نام شترو داس بتایا۔احمد نے حادثے کی خبر دی، وہ فوراً ہسپتال پہنچا۔ شترو ہسپتال پہنچا تو اپنے بھائی شنکر کے ارد گرد احمد، ساحل، امجد اور شاداب جیسے چہرے کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، بلکہ وہ اندر سے سہما ہوا تھا۔ احمد نے اسے تسلّی دی اور کہا : ”شترو بھائی! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، آپ کا بھائی خطرے سے باہر ہے،وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ بروقت اسے بلڈ کی ضرورت تھی، میرا بلڈ اسے کام آگیا، آپ بالکل اطمینان رکھیں۔یقین کیجیے آپ کا شنکر جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔“ اتنا سننے اور جاننے کے بعد شترو کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے، ہچکیاں بندھ گئیں،وہ اپنی چیخ پر بھی قا بو نہیں پاسکا،بلکہ اُس کی چیخوں سے خاموش فضا میں ایک ہلچل سی مچ گئی ۔احمد نے ڈھارس بندھائی، ہمت دلائی۔
شترو نے درد بھرے لہجے میں احمد سے کہا :”مجھے جینے کا کوئی حق نہیں، میں ظالم ہوں ظالم!آپ لوگ میرا گلہ دبا دیجیے، میں اِ س دھرتی کا بوجھ ہوں بوجھ، مجھ سے اِس دھرتی کو ہلکا کردیجیے!“ (اس درمیان وہ بے تحاشا روتا رہا۔)
احمد : مگر آپ کو کیا ہوا ہے؟
شترو پرساد: کیسے کہوں، کس منہ سے کہوں ، کس طرح کہوں ،میرے پاس کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ (شترو بے تحاشا روئے جارہا تھا اور یہ ساری باتیں کہے جارہا تھا)
احمد : آپ بلاجھجک کہیے، شاید ہم کسی کام آسکیں۔
شترو داس : کل جس موب نے دو مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اُن میں ایک میں بھی شامل تھا، اس کے باوجود میرے بھائی کے ساتھ آپ لوگوں کا یہ رویہ اور یہ سلوک۔
یہ سب کہتے ہوئے شترو احمد کے قدموں میں گر پڑا، احمد نے اُسے اٹھایا اوراُس کے مونڈھوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے پوری متانت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی۔ جب کہ اس دوران احمد کا کلیجہ بھی قسطوں میں پھٹ رہا تھا، اُ س نے خود کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی ، لیکن اُس کی آنکھوں کے پُشتے ٹوٹ چکے تھے۔
احمد رندھی ہوئی آواز میں شترو سے مخاطب ہوئے: شترو!احساسِ ندامت بہت بڑی بات ہے، آپ نے غلط کا ساتھ دیا یہ آپ کو احساس ہوگیا ،آپ کا یہ احساس میرے لیے قابل فخر ہے۔ رہ گیا ہم لوگوں کا معاملہ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس کا نام اسلام ہے اور اسلام کے ماننے والے خون بہاکر نہیں، خون دے کر امن و آشتی بحال کرنا جانتے ہیں۔ میں آپ کے بھائی کی جلد صحت یاب ہونے کی تمنا رکھتا ہوں اور دعا گو بھی۔

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here