رمز عظیم آبادی: عزم و استقلال کا پیامبر شاعر

انظار احمد صادق

الحرا پبلک اسکول، شریف کالونی۔۔پٹنہ

انظار احمد صادق

 

رمز عظیم آبادی: عزم و استقلال کا پیامبر شاعر

      اس میں شک نہیں کہ اردو دنیا کی زندہ وتابندہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ اردو کے لب و رخسار اورزلف وکاکل کو سنوارنے اور عروج وارتقا کی منزل پر گامزن کرنے کے لیے دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ کی جدوجہد یقینا تعریف کی مستحق ہے، تو دبستانِ دکن اور رامپور اسکول کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردو کی مختلف اصناف کو دبستانِ دہلی اور لکھنؤ کی بلند وبالا عمارت میں پھلنے، پھولنے کا حسین لمحہ میسر ہوا تو وہیں اردو کے ایک اہم دبستان کی حیثیت سے عظیم آباد کے آنگن میں بھی اردو شاعری کو خوب خوب لہلانے کا موقع ملا۔ اگر میں یہ کہوں کہ اردو کی تاریخ دبستانِ عظیم آباد کے تذکرے کی بنا ادھوری رہ جائے گی تو بیجا نہ ہوگا۔ کیوں کہ اردو کے قدآور ناقد کلیم الدين احمد نے بجا لکھا ہے کہ ”اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں“۔ کلیم الدین احمد کے اس مشہور قول میں مؤخرالذکر عظیم شاعر شاد کا تعلق عظیم آباد سے ہی ہے اور دبستان عظیم آباد نے اردو کی جملہ اصناف سخن میں وہ گرانقدر اضافہ کیا ہے جس کی حقیقت اور صداقت مسلّم ہے۔

     دبستانِ عظیم آباد نے اگر متقدمین شعراءمیں راسخ اور شادجیسی ہستیوں کو وجود بخشا ہے تو اسی دبستان سے رشتہ رکھنے والے ایک شاعر رمز عظیم آبادی کو اردو شاعری کبھی فراموش نہیں کرسکتی، مگر میں رمز عظیم آبادی سے متعلق اپنی گفتگو پیش کرنے سے قبل یہ بھی پیش کردوں کہ رمز عظیم آبادی کی شخصیت جس پذیرائی اور مقام کی مستحق تھی اسے ہم اہل بہار نے وہ مقام نہیں دیا۔ میں نے اس مقالہ کی تکمیل کے لیے بہار اسکول بورڈ کے درجہ نہم، دہم، یازدہم اور دوازدہم یعنی نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کی اردو کی کتابوں کو پلٹ کر دیکھامگر کئی باحیات شعراءکے کلام کو پڑھنے کا اتفاق تو ضرور ہوا، پر رمز عظیم آبادی کہیں رمزیت اور اشاریت میں بھی نظر نواز نہیں ہوئے۔

      بہرحال! رمز کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتےجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک گدڑی پوش شاعر تھے۔ ان کی ز ندگی یقیں محکم اور عمل پیہم کا درس دیتی ہوئی مکمل تصویر نظر آتی ہے، ان کی مزدوری اور رکشہ چلانے کے واقعات پڑھتے ہوئے ان کی کھردری ہتھیلیوں کے زاویے کو ذہن و دل ایک کرب کے ساتھ محسوس کرنے لگتا ہے،ان کی محنت ومشقت کے تذکرے پڑھتے اور سنتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ رمز پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والے ایک عظیم انسان تھے۔ ان کی عظمت حیثیت کا اندازہ انہیں کے ان اشعار سے بخوبی ہوتا ہے کہ:

میرے قدموں سے وابستہ مسافت

مجھے ہر راستہ پہچانتا ہے

کہیں جاوں وہ مجھ کو ڈھونڈ لے گا

مجھے میرا عمل پہچانتا ہے

     شعرا وادبا کا طبقہ انسانی معاشرے میں سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے حالات وکوائف کو محسوس کرنے کے بعد تڑپتا ہے، سسکتا ہے۔ اس دوران ان کی آنکھیں آنسوﺅں کی بجائے لہو کے پھوارے اگلتی ہیں اور ان کے دل قسطوں میں ریزہ ریزہ ہوتے ہیں، پھر ان احساسات و واراداتِ قلبی سے معاشرے کو آگاہ کراتا ہے اور وہ یوں کہتا ہے:

ہر شخص ہے طلسم ہوس میں پھنسا ہوا

یار و! ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا

آدمی  آدمی  کا  رہزن  نہ  تھا

آج کی طرح انسان کاد شمن نہ تھا

     رمز کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے جب ان کے اس شعر پر پہنچا تو چیخیں قسطوں میں نکل پڑیں۔۔۔

بیٹی کو گھر ملا تو مرا گھر چلا گیا

شادی میں رمز قرض لیا تھا مکان پر

     اے کاش! وہ شاعر آج ہمارے درمیان ہوتا تو میں ان کی پےشانی کو بوسہ دینے میں فخر محسوس کرتا۔

        شاعر ی بلا شبہ جگر سوزی کا کام ہے، یہ ننگے پا کسی دشت کی سیاحی سے کم نہیں ۔رمز عظیم آبادی اس دشت کی سیاحی میں آبلہ پا ہوئے اور جگر سوختہ بھی، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد غزلیں، متعدد قطعات اور رباعیات منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے اور بہت سے اشعار زبانِ زد خاص وعام ہوئے۔ ذیل میں چند اشعار ملاحظہ کیجیے، جن کو پڑھنے کے بعد رمز کی غزل گوئی کے دھنک رنگ نمایاں ہوتے ہیں:

اس کی انا  کو  سکہ  تحسین  چاہیے

خیرات دینے والا بھی کاسہ بدست ہے

دوستوں کو جرات اظہار کا پہلو ملے

اپنا قصہ شہر کی دیوار پر لکھا کرو

تمام رات اندھےروں سے لڑ تو سکتا تھا

یہ مت کہو کہ اکیلا چراغ کیا کرتا

      رمز کی جتنی غزلیں ہیں سبھی شاندار، جاندار اور ان کی ذہنی وفکری بلندی کی غماز ہیں۔ مگر ان کی صلاحیت کا اصل اظہار ان کی نظموں میں ہوتا ہے اور یوں بھی نظم گوئی کوئی آسان کام نہیں، کیوں کہ نظم گوئی کی راہ میں ارتباط کا بھرپور خیال رکھنا پڑتا ہے، رمز کی نظموں کو پڑھنے کے بعد اگر ایک طرف نظم گوئی کے تقاضے سمجھ میں آتے ہیں تو دوسری طرف ان کی قدرتِ اظہار، موزونیت کا جمال، بندش کی خوبصورتی اور منظر نگاری کی رعنائی اور استعاروں کے انوکھے پن پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی شاہکار نظم ”بہاروں کی دنیا “ جو وادی کشمیر کی سیر کراتی ہے کا صرف ایک بند ملاحظہ کیجیے:

یہ شہتوت جیسے حسینوں کی انگلی میں مہندی رچی ہے

یہ انگور جیسے سہاگن کے کانوں میں بالی پڑی ہے

یہ سیب احمریں جن میں رخسارِ جاناں کی رنگت چھپی ہے

یہ خوبانیاں جن کے سینوں میں ہونٹوں کی صہبا بھری ہے

غزل کے حسیں استعاروں کی دنیا میں یہی سرزمیں ہے

     رمز نہ یہ کہ صرف احساسات وجذبات سے مملو شاعر گزرے ہیں، بلکہ صدق وصفا کے داعی شاعرگزرے ہیں۔ وہ اپنی ذات اور کردار وعمل سے سچے تھے۔ سچائی پر مبنی ان کے اشعار بآسانی فراموش نہیں کیے جاسکیں گے۔ ان کے جذبات کے تذکرے مدتوں ہوتے رہیں گے، کیوں کہ وہ عزم و استقلال کے پیکر تھے اور پیامبر بھی،وہ اپنے اس دعوے میں سو فیصد صادق نظر آتے ہیں اور پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ:

آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکیں ناممکن ہے

نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائیں گے

SHARE
Previous articleدہشت گردی ایک جنگ کی طرح ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس کا جواب جنگ سے ہی دیا جائے؛امت شاہ
Next articleتقسیم کے بعد پاکستان گئے مسلمانوں کی ایک لاکھ کروڑ کی ’دشمن جائیداد‘ فروخت کرنے کی تیاری

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here