گائے کے نام پر ہجومی تشدد میں اضافہ: ہیومن رائٹس واچ کا انکشاف

نیویارک،(ایجنسی):ہندوستان میں گائے کے تحفظ کی بات محض ہندووں کا ووٹ حاصل کرنے کے ایک نعرہ رہا ہو لیکن یہ گذشتہ سالوں میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہجومی حملے کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے امریکہ میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ پانچ برس میں گائے کے نام پر نفرت اور ہجومی تشدد میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ’گﺅ رکشک‘(گائے کے محافظ) اور دوسرے گروپ جو مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف نفرت پھیلاتے اور انھیں بدنام کرتے ہیں ان کی تعداد گزرے سالوں میں کافی بڑھ گئی ہے۔ہندوستان میں ہندوو¿ں کی اکثریت گائے کو مقدس تصور کرتی ہے۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد ہے۔ بیلوں کا استعمال بنیادی طور پر کھیتی کے لئے ہوتا ہے اورگائیں لوگ دودھ کے لئے پالتے ہیں۔ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں بکرے، بھینس اورمرغ کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ کچھ ریاستوں میں ایک مخصوص عمر کے بعد گائے اور بیل کے ذبیحے کی اجازت تھی لیکن سنہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی بھی عمر کی گائے، بیلوں اور ان کی نسل کے جانوروں کو گوشت کے لئے کاٹنے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

سنہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ مختلف ریاستوں میں ’گﺅ رکشک‘ یعنی گائے کے محافظ اور دوسری ہندو تنظیموں کے کارکن جگہ جگہ گروپوں میں نظر آنے لگے۔ ان میں بیشتر کا تعلق حکمراں جماعت بی جے پی یااس کی حواری تنظیموں سے ہے۔ نظریاتی طور پر وہ سخت گیر ہندوئیت کے علمبردار ہیں۔ یہ نوجوانوں کا گروپ ہے جو اکثر بے روزگار ہوتا ہے۔ یہ مویشی منڈیوں، شاہراہوں اور سڑکوں پر پولس کی مدد سے ٹرک اور دوسری گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں اور گائے ہی نہیں اکثر بکرے اور بھینس وغیرہ لے جانے والوں کو بھی زد و کوب کرتے ہیں۔گﺅ رکشکوں کو حکمراں پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ اپنے مقامی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان اور دوسرے سیاسی رہنماو¿ں کی حمایت سے اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان کا تعلق سخت گیر ہندو تنظیموں سے بھی ہے۔ حکمراں پارٹی بی جے پی سے تعلق ہونے کے سبب پولس بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے ڈرتی ہے۔

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے مئی سنہ 2015 سے دسمبر 2018 تک 44 افراد گائے نام پر ہجومی تشدد کا شکار ہوئے ان میں 36 مسلمان تھے۔ ان واقعات میں گائے لے کر سفر کرنے والوں کو سڑک یا راستے میں روکا جاتا ہے۔ پھر لوگوں کی ایک بھیڑ انھیں یا تو مار مار کر ہلاک کر دیتی ہے یہ نیم مردہ حالت میں انھیںتڑپنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے۔دہشت پھیلانے کے لئے ہجومی تشدد کی باقاعدہ ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیا پر پھیلایا جاتا ہے۔ پولس اکثر حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ متاثرین کے خلاف گائے کی اسمگلنگ اور دوسرے معاملات میں کیس درج کرتی ہے اور ہجومی تشدد کے مرتکبین کے خلاف کاروائی آگے نہیں بڑھ پاتی۔ہجومی تشدد کے بیشتر واقعات میں گائے کے تحفظ کے نام پر ٹرانسپورٹروں، تاجروں، ڈیری فارم اور عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ زیادہ تر واقعات بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں رونما ہوئے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد پر قابو پانے کے لئے سنہ 2017 میں مرکز اور تمام ریاستوں کو کچھ ہدایات جاری کی تھیں۔ ان میں احتیاطی اقدامات کے ساتھ ساتھ سزائیں دینے کے اقدامات کا ذکر تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کی جے شری بیوریا کہتی ہیں کہ سنہ 2014 کے بعد ملک میں نفرت کی سر گرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ انتہاپسند گروپ مذہبی اقلیتوں کو بدنام کرتے ہیں ان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔جے شری بیوریا کا کہنا ہے کہ چونکہ ان تنظیموں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے’اس لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ سیاسی قیادت یہ پیغام دے کہ ان لٹھ بردار گروپوں کو کسی بھی سیاسی پارٹی یا حکومت سے کوئی تحفظ نہیں ملے گا۔ اگر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انھیں قانون کا سامنا کرنا ہی ہو گا۔‘اس رپورٹ میںمرکزکی نریندرمودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے گائے کے نام پر تشدد کا ارتکاب کرنے والی ان انتہاپسندتنظیموں کے حملوں کو روکے اور انھیں ان کے جرم کی سزا دے۔

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here