*💫تلخیاں “3،،💫*
اہتمام صادق
شعبہء اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی – 25
بارش نے مطلع بالکل شفاف کر دیا تھا اور سورج بادلوں کی اوٹ سے نکل کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا. جوں جوں شام ہو رہی تھی اور ہواؤں میں خنکی کا اضافہ ہو رہا تھا نینا کے دل میں ایک انجان سی خلش کا احساس بڑھتا جا رہا تھا. وہ لان میں بچھے بینچ پر بیٹھی نہ جانے کن خیالوں میں گُم تھی. اس کے ہونٹوں سے رہ رہ کر سسکیاں نکلتیں اور ہواؤں میں تحلیل ہو جاتیں۔
ہائے نینا! اریبہ لان میں قدم رکھتے ہی چہکاری لیکن نینا کے آنسوؤں نے اسے اندر تک جھنجھوڑ دیا، اس نے ہاتھ میں تھامے دعوت نامے کو ایک طرف رکھا اور دوڑ کر نینا کو اپنے سینے سے لگا لیا. نینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
کیا ہوا نینا؟ کیوں رو رہی ہے؟ کیا بات ہے؟
وہ…..فرید…ہے نا…..
اس دن جس کی تصویر تو نے دکھائی تھی…؟
ہاں وہی….نینا نے اپنی ہچکیوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
تھوڑی دیر پہلے اس کا فون آیا تھا. ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے، باتوں باتوں میں میں نے اس سے کہا کہ “اب ہمیں شادی کر لینی چاہئے،، تو اس نے کہا کہ……… نینا سانس لینے کے لئے رکی اور اپنے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسوؤں کو اپنے اسکارف نما ڈوپٹے سے خشک کرتے ہوئے بولی۔
اس نے کہا کہ “ہم دونوں تو دوست ہیں پھر یہ شادی کی بات کہاں سے آ گئی اور ویسے بھی تم لڑکیاں تو لڑکوں کو استعمال کرنے کے لئے فرینڈ شپ کرتی ہو ہے نا؟،، اور فون ڈسکنیکٹ کر دیا. نینا جوں کا توں فرید کا جملہ دہراتے ہوئے رونے لگی. اریبہ نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا اور زیرِ لب نینا کا جملہ دہرایا “اب ہمیں شادی کر لینی چاہئے،، ایک مرتبہ تو اس نے سوچا پوچھ ہی لے کہ آخر اس جملے کا مطلب کیا ہے لیکن خاموش رہی. اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ نینا کو دلاسہ دے یا وہاں سے چپ چاپ نکل جائے.
فکر مت کر سب ٹھیک ہو جائے گا، اریبہ نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر کہا اور سوچوں میں گم ہو گئی. وہ نینا کے متعلق سوچتی تو رخسار پر آنسوؤں کے قطرے ڈھلک آتے اور آنکھیں دور کسی نادیدہ شخص کو گھور کر رہ جاتیں لیکن جب اس کے خیال کی رَو فرید کی طرف جاتی تو وہ فرید کے جملے کو جواز کا جامہ پہنانے میں لگ جاتی. آخر کار اس نے ان خیالات کو ایک طرف جھٹکا، نینا کو دلاسا دیا اور اگلے دن دوپہر تک آنے کا وعدہ کر کے چل پڑی۔
رات کے نو بج چکے تھے لیکن قاسم صاحب کا ابھی تک پتا نہیں تھا، حالانکہ ان کا معمول تھا کہ وہ سات بجے تک آفس سے واپس آ جاتے تھے لیکن کچھ دنوں سے ان کے اس معمول میں تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہو گئیں تھیں. وہ اکثر رات گئے تک غائب رہتے اور واپس آنے پر جب کبھی ان سے اس تعلق سے دریافت کیا جاتا تو فوراً بات کو ٹال دیتے. بعض دفعہ تو انہوں نے اس بات کو لے کر غصے کا اظہار بھی کیا تھا کہ ان سے بچوں کی طرح باز پرس کیوں کیا جاتا ہے لیکن آج تو بطورِ خاص انہوں نے اریبہ کی سالگرہ کے لئے چھٹی کر رکھی تھی. پھر بھی اب تک ندارد تھے۔
دھیرے دھیرے رات گزرتی رہی یہاں تک کہ اس نے اپنے عروج و زوال کا سفر مکمل کر لیا. قاسم صاحب کے واپس لوٹنے کی امید نے ابھی حقیقت کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
ہیلو، مسز قاسم نے ماؤتھ پیس کو قریب لے جا کر کہا.
جی بھابھی جی، میں مِشرا بول رہا ہوں آفس سے.
جی بھیا، یہ اریبہ کے ابو کہاں ہیں، نہ تو ان کا فون لگ رہا ہے اور نہ آفس کا، ہم لوگ شام ہی سے کتنے پریشان ہیں اور ان کو کچھ فکر ہی نہیں ہے۔
ارے بھابھی وہ بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے نا، تو وہ کل سے ہی ہاسپٹل میں ہیں۔
کون سے بیٹے کا…؟ اور کس کے بیٹے کا…؟ مسز قاسم بے چین ہو اٹھیں اور بیک وقت کئی سوال داغ مارے.
تو کیا آپ کو کچھ بھی نہیں پتا تھا بھابھی…؟
کیا نہیں پتا….؟ مسز قاسم کی بے چینی میں اور اضافہ ہو گیا تھا اور لہجے میں ہلکی سی کپکپاہٹ بآسانی محسوس کی جا سکتی تھی۔
یہی کہ قاسم کی ایک دوسری بیوی بھی تھی جس سے ایک بیٹا بھی تھا، فرید، کل شام کے وقت اسی کا ایکسیڈنٹ………مِشرا کی آواز گونجتی رہی. ماؤتھ پیس مسز قاسم کے ہاتھ سے چھوٹ پڑا اور وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔
اریبہ نے دوڑ کر انہیں سنبھالا اور وہیں پڑے سوفے پر ایک طرف بٹھا دیا۔
ہیلو، مِشرا انکل، کیا ہوا….؟ اریبہ نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
جی بیٹا، وہ تمہارے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے. وہ اس وقت NCM ہاسپٹل میں ہے اور تمہارے ابو اور چھوٹی امی بھی وہیں ہیں.
اوکے ٹھیک ہے، ہم لوگ پہنچتے ہیں، اریبہ نے کہا اور فون رکھ دیا۔
گھر سے ہاسپٹل تک کے سارے راستے میں مسز قاسم کی سسکیاں اور آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. اریبہ کبھی انہیں دلاسہ دیتی اور کبھی نینا کے متعلق سوچنے لگتی اور کبھی قاسم کی دوسری شادی اور اپنے بھائی کے بارے میں سوچتی تو بے ساختہ مسکرا دیتی. ہاسپٹل میں داخل ہوتے ہی اریبہ نے گھڑی پر نظر ڈالی، بارہ بجنے میں کچھ ہی منٹ باقی تھے. اسے نینا سے کیا وعدہ بخوبی یاد تھا اور اس نے جلد ہی وہاں سے واپس لوٹ جانے کا ارادہ بنا رکھا تھا لیکن ایمرجنسی وارڈ میں پہونچتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ قاسم نے جس مریض کا ہاتھ تھام رکھا تھا وہ کوئی اور نہیں، فرید تھا، نینا کا فرید۔۔۔