سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا

سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا

سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا

منٹو کی یوم وفات پر خاص

طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان

طوبی سہیل

“ہم انسان کی فطری کمزوریاں دبا سکتے ہیں، ان کو کسی حد تک روک سکتے ہیں، مگر ان کا قطعی انسداد نہیں کر سکتے”

سعادت حسن منٹو کی پیدائش 11 مئی 1912ء کو ہوئی تھی اور شاید کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دبلا پتلا منحنی سا نوجوان مستقبل کا اتنا بڑا کہانی کار بن کر ابھرے گا۔ لیکن منٹو نے نہ صرف اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ اس کے بعد آنے والی نسل بھی اس کی کہانی کا جواب پیدا نہیں کر سکی۔ شاید اسی لیے منٹو نے لکھا تھا ”سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا”۔ “

سعادت حسن منٹو کا نام زبان پر آتے ہی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کی یاد آ جاتی ہے۔ منٹو دراصل ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی تفصنیفات ان کی زندگی میں جتنی مبنی بر حقائق تھیں اس سے کہیں زیادہ آج ہیں۔ یوں تو وہ اردو کے مصنف تھے لیکن ان کی تصنیفات حقیقی انسانی جذباتوں اور احساسات کو جس سچائی کے ساتھ بیان کرتی ہیں وہ کسی بھی زبان میں کھری اترتی ہیں۔
“حقیقت سے انحراف کیا ہمیں بہتر انسان بننے میں مدد و معاون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں “
منٹو کی شخصیت کی تحلیل نفسی کرتے ہویے پروفیسر محسن لکھتے ہیں:

”منٹو کی خانگی زندگی نہایت خوش گوار تھی۔ وہ ایک شریف بیوی کا وفا دار شوہر تھا اور تین بچیوں کا شفیق باپ۔ اس کو بیوی کی رضا مندی کا بہت خیال تھا۔ دوستوں کے یہاں جاتا تو اکثر اپنے ساتھ لے جاتا۔ منٹو کو اپنی بیوی سے محبت ہی نہیں تھی اسے اس کی دلجوئی کا خیال بھی تھا اور اس کی خاطر داری کرنے سے چوکتا نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے جذبات کا کافی احترام کرتا تھا۔ اکثر یہ جانتے ہوئے بھی کسی خاص معاملہ میں صفیہ کا خیال درست نہیں تھا، منٹو ا س سے بحث میں نہیں پڑتا تھا حالانکہ وہ بہت نازک مزاج تھا اور بحث میں پڑنا اس کی عادت تھی، ہمیشہ اپنی بات کی پخ رکھنا چاہتا تھا”۔

منٹو انسانی تنگ دلی، عیاری، سطحیت اور سماج کے اندھیرے و غلیظ گلیاروں کے بارے میں بغیر کسی تبدیلی کے ویسے ہی لکھتے ہیں جیسا کہ وہ ہے۔ یہی چیز ان کی کہانیوں کو مزید حقیقی بنا دیتے ہیں.

” انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے”

اردو افسانے کا ذکر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں سعادت حسن منٹو کو شامل نہ کیا جائے، جن کی زندگی تو تمام ہوگئی مگر ان کے قلم کی سیاہی کبھی ختم نہ ہوئی اور وہ تک تب افسانے لکھتے رہے جب تک انہوں نے اپنے بستر پر ہی ہمشہ کے لیے آنکھیں بند نہ کیں۔ملک کی تقسیم پر لکھتے ہوئے بھی بہت بے باک رہے، اس واقعہ سے اگر کوئی سب سے زیادہ پریشان ہوا تو شاید وہ منٹو ہی تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ انھوں نے دل سے کبھی تقسیم کو قبول نہیں کیا، لیکن جب اداکار اشوک کمار کے گھر سے لوٹتے ہوئے ان پر حملہ ہوا تو انھوں نے نئے ملک پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن تقریباً دس دن وہاں گزارنے کے بعد ہی انھوں نے فون پر اپنے دوستوں سے کہا کہ پاکستان جانے کا فیصلہ شاید ان کی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔۔
”میرے ملک کی وہ آبادی جو پیکارڈوں اور بیوکوں پر سوار ہوتی ہے، میرا ملک نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا ملک وہ ہے جس میں مجھ ایسے اور مجھ سے بدتر مفلس بستے ہیں”

منٹو پر اپنی بے باک کہانیوں کے لیے چھ مرتبہ فحاش نگاری کا مقدمہ چلا۔ تین مرتبہ ہندوستان میں اور تین مرتبہ پاکستان میں۔ لیکن ہر بار انھیں باعزت بری کیا گیا۔
منٹو کا ماننا تھا کہ:

” مرد کا تصّور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے”
” دراصل جنسی بُھوک کچھ اس قسم کی بُھوک ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتی”
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
”چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بھار بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں’

اردو کی ایک معروف مصنفہ عصمت چغتائی نے اپنی یادداشت ‘’کاغذی ہے پیرہن” میں منٹو کی تصنیفات کے بارے میں بہت واضح طور پر لکھا تھا کہ” منٹو اگر (اپنی تصنیفات میں) کیچڑ اچھالتے ہیں تو اس سے وہ گندگی دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ہی اس گندگی کو صاف کرنے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے’‘۔

منٹو آج بھی بہت سے لوگوں کے ناپسندیدہ افسانہ نگار ہونے کے باوجود وہ بہت سوں کے پسندیدہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ لیکن ان حضرات کے بارے میں کیا کہا جائے جو ہمیشہ منٹو کے پڑھنے والوں کو یہی تاکید کرتے رہتے ہیں کہ “بچوں کو منٹو کی کہانیوں سے دور رکھیں”، مگر وہ خود ان کے افسانے چھپ چھپ کر پڑھتے رہتے ہیں، اور ان کے افسانوں میں جنسی لذت کا پہلو تلاش کرتے ہوئے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔وہ خود کو کہتے ہیں کہ:
“لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔”
منٹو نے اپنی کہانیوں میں عورتوں کی بنیادی شریف النفسی، نیک نیتی، جذبہٴ ہمدردی، عزت نفس کے پاس کی نقاب کشائی کر کے ان کی شخصیت کو اس دور کی شریف بہو بیٹیوں کی طرح دل آویز اور پر کشش بنا دیا ہے. عورتوں کی آزادی اور مردوں کے استداد و نامنصفانہ اور نابرابری کے برتاؤ سے نجات کا مسئلہ ایک عالمی تحریک کا موضوع بن گیا ہے۔ اس کی تخلیقات کے پیش نظر منٹو کو اس کا پیش رو قرار دینا شاید غلط نہ ہو گا۔
”میں پوچھتا ہوں اگر عورت کی عصمت ہے تو کیا مرد اس گوہر سے خالی ہے؟ اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہوتا؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تیروں کا رخ صرف عورت کی طرف ہوتا ہے

منٹو کے افسانوں کے مجموعے درجہ ذیل ہیں۔۔۔

نمرود کی خدائی

برقعے

پھندے

شکاری عورتیں

سرکنڈوں کے پیچھے

گنجے فرشتے

بادشاہت کا خاتمہ

شیطان

اوپر نیچے درمیان میں

نیلی رگیں

کالی شلوار

بغیر اجازت

رتی ماشہ تولہ

یزید

ٹھنڈا گوشت

بڈھاکھوسٹ

آتش پارے

خالی بوتلیں خالی ڈبے

سیاہ حاشیے

گلاب کا پھول

چغد

لذت سنگ

تلخ ترش شیرریں

جنازے

بغیر اجازت یہ نام پہلے سے ہیں

سعادت حسن منٹو اردو کے ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں، جن کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کا انتقال ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ء کو ۴۲ برس کی عمر میں ہوا۔ آج ۶۱ برس بعد بھی یہ صاحب طرز نثرنگار اپنی تحریروں میں زندہ ہے۔۔

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here