ممبئی :(آزاد نیوز) سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز چند شرائط کے ساتھ مہاراشٹر میں ڈانس بار چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ جسٹس ارجن کمار سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے مہاراشٹر حکومت کے 2016 کے قانون کو جائز تسلیم کیا لیکن اس کے کچھ التزام کو رد بھی کردیا۔ عدالت نے کہا کہ ڈانس بار میں نوٹ اور سکّے نہیں اڑائے جاسکیں گے لیکن بار گرلز کو ٹپ دی جاسکے گی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مہاراشٹر حکومت کے قانون میں فحاشی پر تین سال کی سزا کے التزام کو منظوری دے دی۔
عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد ممبئی میں ڈانس بار اب شام چھ بجے سے 11 بجکر 30 منٹ تک کھلے رہ سکیں گے۔ ڈانس بار میں شراب پیش کرنے اور آرکیسٹرا کی بھی اجازت مل گئی۔ بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بار میں کسی طرح کی فحاشی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے والوں کے لئے تین برس کی سزا کا التزام برقرار رکھا گیا ہے۔ عدالت نے اگرچہ واضح کیا کہ ڈانس بار میں سی سی ٹی وی لگانا ضروری نہیں ہوگا۔عدالت عظمی کے فیصلے کے تحت ڈانس بار کے اسٹیج اور گراہکوں کے درمیان دیوار نہیں ہوگی۔
حکومت نے طے کیا تھا کہ گراہکوں اور بار گرلز کے درمیان تین فٹ اونچی ایک دیوار بنائی جائے جس سے رقص تو دیکھا جاسکے لیکن ان تک پہنچا نہ جاسکے۔ عدالت نے کہا کہ ممبئی جیسے علاقے میں مذہبی اور تعلیمی مقامات سے ایک کلو میٹر کی دوری پر ڈانس بار ہونے کا اصولی پابندی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر اب ممبئی میں زیادہ ڈانس بار دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ گراہک بار گرلز کو ٹپ دے سکتے ہیں لیکن وہ ان پر روپے نہیں برسا پائیں گے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ بار گرلز اور بار کے مالکان کے درمیان تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں۔ یہ حق حکومت کا نہیں ہے، بلکہ یہ مالکان اور بار گرلز کے درمیان کا معاہدے کا معاملہ ہے۔ عدالت عظمی نے گزشتہ برس 31 اگست کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ انڈین ہوٹل اینڈ ریسٹورینٹ ایسوسی ایشن نے ریاست میں باقاعدہ طور پر ڈانس بار چلائے جانے کے لئے مہاراشٹر پروہیبیشن آف آبسین ڈانس ان ہوٹل، ریسٹورینٹ اینڈ بار رومز اینڈ پروڈکشن آف ڈگنٹی آف یومن (ورکنگ ڈیئر ان) ایکٹ ، 2016 کو چیلنج کیا تھا۔