کلام حفیظ است۔۔۔ اللہ اکبر

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

کلام حفیظ است۔۔۔ اللہ اکبر

طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان

طوبی سہیل

ابو الاثرحفیظ جالندھری پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ مگر ان کی مقبولیت بھارت میں کم نہیں تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ہی وہ اپنی ادبی حیثیت منوا چکے تھے۔ ان کی دوسری شناخت ”شاہنامہ اسلام“ کے تناظر میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا شعری حوالہ ہے۔

حفیظ اہل زبان کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں۔

۱۴جنوری ۱۹۰۰ء کو جالندھرمیں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ جب بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کا آغاز کیا تو حفیظ جالندھری بھی اس میں جوش و خروش سے اس تحریک کا حصہ بنے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ بھی لاکھوں مسلمانوں کی طرح ہجرت کرکے لاہور آگئے۔ حفیظ جالندھری کی پہلی شادی اپنی کزن زینت بیگم سے ۱۹۱۷ء میں ہوئی تھی جن کا ۱۹۵۴ء میں انتقال ہوگیا تھا۔ حفیظ جالندھری جنگ عظیم دوم میں فوج کے محکمہ انفارمیشن سے وابستہ ہوگئے تھے انہوں نے اس زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت ” ابھی تو میں جوان ہوں“ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ حفیظ جالندھری نے شاعری میں مولانا غلام قادر بلگرامی کی شاگردی اختیارکی تھی اور اپنے اشعار کی اصلاح ان سے لیتے تھے۔حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔۔
.
مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
مرے دیدہ و دل کو آباد رکھنا
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا

حفیظ جالندھری کے فن و شخصیت پر ان کی زندگی میں صہبا لکھنوی نے اپنے ادبی جریدے’’ افکار ‘‘کا حفیظ نمبر بھی شائع کیا تھا جس میں برصغیرکے معروف اہل قلم نے نظم و نثرکی صورت ان کو خراج تحسین پیش کیا تھا ۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف سرکاری سطح پر بھی کیا گیا اور حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا
حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات میں چار جلدوں میں شاہنامہ اسلام، نغمہ زاد ‘ سوز و ساز، تلخابہ شریں اور چراغ سحر چھوڑے۔ ان کے بہت سے اشعار سہلِ ممتنع کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔

دل ابھی تک جواں ہے پیارے
کس مصیبت میں جان ہے پیارے
تلخ کر دی ہے زندگی اس نے
کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
تمہیں نہ سن سکے اگر قصہٴ غم سنے گا کون
؎ کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے ” حفیظ جالندھری کی تخلیق کردہ شاعری جس طرح دوسروں سے الگ تھی‘ اسی طرح ان کے کلام سنانے کا انداز بھی منفرد تھا۔ وہ اپنے کلام کو جس طرح پڑھتے‘ سننے والے بے ساختہ واہ واہ کرتے تھے. حفیظ جالندھری کی شخصیت اور انکی تخلیقات نظم و نثر کو تنقیدی نکتہ و نظر سے جانچنا اور اس وسیع و عریض منقطے کی پیمائی کر کے اسکی وسعتوں کو سمیٹنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔۔
حفیظ جالندھری کے کلام کی خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہندی بحروں کو اردو میں رائج کرکے نیا آہنگ دیا۔

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلادیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے!
تم ہی نہ سن سکے اگر قصہ غم سنے گا کون

حفیظ جالندھری عاشق رسولؐ تھے. وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار اور مدیر بھی تھے۔ وہ شباب اردو، نونہال، ہزار داستان اور مخزن کے ایڈیٹر رہے۔ انکی شعری کتب میں نغمہ زار، تلخابہ شیریں، سوزوساز، شاہنامہ اسلام (4 جلدیں) اور حفیظ کے گیت۔ نغمے (چار جلدیں) شامل ہیں۔ ہفت پیکر کے نام سے ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا۔ ”چیونٹی نامہ“ نثری کتاب تھی۔ بچوں کیلئے بھی انہوں نے شاعری کی۔ بعض لوگ انہیں متکبر سمجھتے تھے۔ انکے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ وہ بے حد ملنسار اور محبت کرنیوالے انسان تھے۔ البتہ وہ خود دار ضرور تھے۔لندھری کو زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اس حوالے سے ان کا شعر ہے۔

انہیں کیا خبر میری دشواریوں کی
ستارے فقط آسمانوں سے گزرے

اسلامی شاعری میں حفیظ کا مقام بہت بلند ہے لیکن غزل اور گیت میں بھی ان کا مقام علیحدہ اور نمایاں ہے۔ ان کا شعر ہے۔۔۔

کیا پابند نے نالے کو میں نے
یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری

یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک طرزِ خاص کے موجد تھے. ان کی شعری کائنات چھ دہائیوں پر محیط ہے اور ان کا یہ دعویٰ درست ہے:

شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔۔

…..
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
ہاں میرے مجروح تبسم خشک لبوں تک آتا جا
پھول کی ہست و بود یہی ہے کھلتا جا مرجھاتا جا
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بد نام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا
یہ دکھ درد کی برکھا بندے دین ہے تیرے داتا کی
شکر نعمت بھی کرتا جا دامن بھی پھیلاتا جا
جینے کا ارمان کروں یا مرنے کا سامان کروں
عشق میں کیا ہوتا ہے ناصح عقل کی بات سجھاتا جا
……
مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
مرے دیدہ و دل کو آباد رکھنا
بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں
تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا
وہ ناشاد و برباد رکھتے ہیں مجھ کو
الٰہی انہیں شاد و آباد رکھنا

تمہیں بھی قسم ہے کہ جو سر جھکا دے
اسی کو تہ تیغ بیداد رکھنا
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا
……
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے
بہار پر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
ادھر تو لوٹ ادھر تو آ
ارے یہ دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبو سبو اٹھا
سبو اٹھا پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے ادھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجوم مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیال زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی ادھر کوئی ادھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصہ مختصر
تمہارا نقطۂ نظر
درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں
یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئے بار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
ادھر سے مہربانیاں
ادھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انہیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں
نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

SHARE
Previous articleملک زعفران کے قیدی۔۔۔۔۔۔۔
Next articleمحمد سراج نے اپنے پہلے ہی ون ڈے میچ میں بنایا یہ ریکارڈ

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here