بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے
رومان اور انقلاب کا پر کیف سنگم۔۔۔۔ کیفی اعظمی
یوم پیدائش پر خاص
طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان
کیفی اعظمی کی پیدائش انیس جنوری انیس سو انیس ۱۹۱۹ میں ہوئی تھی ۔ اعظمی کاتعلق اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا لیکن بہرائچ شہر سے بھی گہرا تعلق تھا۔کیفی کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔ غالباً1943ء میں کیفی اعظمی اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ سے بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے اور قریب دس سال کی جدوجہد کے بعد انہیں ہندی فلمی صنعت میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
کیفی نے محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور وہ اکثر مشاعروں میں شرکت لگے لگے تھے۔
لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔ بیٹے کا امتحان لینے کے لئے والد نے انہیں گانے کی ایک لائن دی اور اس پر انہیں غزل لکھنے کو کہا۔ کیفی اعظمی نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس لائن پر ایک غزل کی تخلیق کی. ان کی یہ غزل ان دنوں کافی مقبول ہوئی اور بعد میں معروف پلے بیک گلوکار بیگم اختر نے اسے اپنی آواز دی۔ غزل کے بول کچھ اس طرح سے تھے:
”اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے” نہ ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے”۔کیفی کی شروعات عام شعراء کی طرح غزل سے ہوئی۔۔
وہ سب کی سن رہے ہیں سب کو داد شوق دیتے ہیں
کہیں ایسے میں میرا قصئہ غم بھی بیان ہوتا
۱۹۴۲ء کی انڈیا چھوڑوتحریک کے دوران انہوں نے فارسی اور اردو کی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور فل ٹائم مارکسسٹ کارکن بن گئے۔1943ء میں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کرلی۔اس طرح وہ لکھنؤ سے ترقی پسند مشہور شعراء کی نظروں میں آگئے۔ وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بھی معترف ہوگئے۔ انہوں نے ان کو فطری شاعر پاکر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی جس کی بنا پر انہیں ترقی پسند رائٹرز کی تحریک کا رکن منتخب کر لیا گیا۔۔
دیگر اردو شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی رومانی پہلوؤں کے علاوہ انسان کو شعور بخشنے والی ہے۔ ان کی شاعری میں جاگرتی بھی ہے اور معاشرہ کی دکھتی رگوں پر نشتر زنی کرنے والی بھی ہے۔ انہوں نے پسے ہوئے عوام کے استحصال کے خلاف بھی شاعری کی ہے اور معاشرے کے محروم افراد کی وکالت بھی کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی جو خدمت کی ہے اس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.
ان کی پہلی نظم “سرفراز” لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ شادی کے بعد ان کے گھر کا خرچ بہت مشکل سے چل پاتا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے روزنامہ اخبار میں طنزو مزاح کا کالم بھی لکھنا شروع کیا. اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کیفی اعظمی نے فلمی نغمات لکھنے کا فیصلہ کیا۔کیفی اعظمی رومان اور انقلا ب کا عمدہ امتزاج پیش کیا ہے، تاہم ان کی زیادہ تر نظمیں رومانی ہیں ۔ یہ رومان کوئی معمولی قسم کا رومان نہیں ہے بلکہ اس میں اعلیٰ شاعری کے بہترین نمونے موجود ہیں ۔’آوارہ سجدے’ مجموعے میں کیفی رومان اور حسن و جمال کی کیفات سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ روداد محبت کی باریکیوں کو جس طرح سے انہوں نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے، وہ کوئی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والا شاعر ہی پیش کر سکتا ہے۔ کیفی کی شاعری کا پہلا دور ہے، جس میں انہوں نے رومانی شاعری کی تمام کیفیتوں بخوبی و بحسن پیش کیا۔
آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں
….
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ پر اسکا نشان نہیں ملتا
کیفی کی شاعری کا دوسرا رخ انقلابی اور احتجاجی ہے۔ جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر آنے کے بعد انہوں نے تخلیق کیا۔۔
یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے
جیسے دھوپ کو کھا گیا کوئی
کیفی کو ڈر تھا کہ کہیں اسکا محبوب سرمحفل رسوا نہ ہو جائے اسی خوف کہ بنا پر انھوں نے ایک طویل عرصے تک اظہارِ محبت نہیں کیا۔۔
مدت کے بعد جو اس نے کی لطف کی نگاہ
دل خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
کیفی کی شاعری میں ناسازگاری، آپسی اختلافات، ہجر و وصال، امید و آس اور محبت کے چراغ روشن کرنے کی خعاہش نمودار ہوتی ہے۔۔
لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے
ہے قیس کوئی جو دل لگائے
ان کے شعری مجموعوں میں آخر شب،سرمایہ، آوارہ سجدہ، کیفیات، نئے گلستان قابل ذکر ہیں وہ خواجہ احمد عباس کے اخبار ’’بلٹز‘‘ کے اردو ایڈیشن کیلئے مضامین بھی لکھتے رہے اس کے علاوہ ’’میری آواز سنو‘‘ میں بھی تحریر کرتے رہے۔ انہوں نے فلم ہیر رانجھا کا سکرپٹ او ر گیت دیونگری رسم الخط میں لکھے ان کی جو نظمیں مشہور ہوئیں ان میں عورت، مکان، دائرہ، سانپ اور بہروپنی قابل ذکر ہیں۔
جہاں تک خاص گیت نگاری کا تعلق ہے۔ انہوں نے گرودت کی فلم’’ کاغذ کے پھول‘‘ میں گیت لکھ کر اسے دوام بخشا۔ فلم کی کہانی ایک بوڑھے ہدایت کار کے گرد گھومتی ہے جسے اب کوئی پوچھتا نہیں فلم کا آغاز کیفی اعظمی کے اس گیت سے ہوتا ہے۔
دیکھی زمانے کی یاری
بچھڑے سبھی باری باری
کیا لے کے ملے اب دنیا سے
آنسو کے سوا کچھ پاس نہیں
یا پھول ہی پھول تھے راہوں میں
یاکانٹوں کی بھی آس نہیں
نفرت کی دنیا ہے ساری
بچھڑے سبھی باری باری
رات بھر مہمان
ہیں بہاریں یہاں
رات گھر ڈھل گئی
پھر یہ خوشیاں کہاں
دور یہ چلتا رہے
رنگ اچھلتا رہے
روپ بدلتا رہے
جام چلتا رہے
مطلب کی ہے دنیا ساری
بچھڑے سبھی باری باری
فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘ گرودت کی ذاتی زندگی پر تھی اس میں کیفی اعظمی کا یہ گیت تواب تک لوگوں کے کانوں میں گونجتا ہے۔
وقت نے کیا کیا حسین ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم
جائیں گے کہاں، سوجھتا نہیں
چل پڑے مگر راستہ نہیں
ہم بھی کھو گئے تم بھی کھو گئے
ساتھ ساتھ چل کے دو قدم
وقت نے کیا کیا حسین ستم
کیفی جیسے حساس شخص نے خود بمبئ میں رہ کر جد و جہد کی اور فٹ پاتھ پر رات بتائی ہے۔ اس لئے ان سب کے اثرات تمام ترقی پسند شعرا سے کہیں زیادہ ان پر نمایاں ہوتے ہیں ۔ ان حالات کا تجربہ کرنے کے بعد کیفی کی شاعری میں تبدیلی آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اس معاشعرے کا تقاضا تھا، اگر کیفی خود کو تبدیل نہ کرتے تو آج ان کو اردو شاعری میں جو وقار’’ آوارہ سجدے‘‘ نے بخشا ہے وہ کبھی نہیں ملتا اور ان کی شاعری گھن گرج اور احتجاج میں گم ہو کر رہ جاتی۔ کیفی نے اندر ہوئی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’انسان ہمیشہ اپنے ماحول اور ماحول کے ساتھ اپنے آپ کو بدلتے رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ میری شاعری کا موضوع یہی عظیم جد و جہد ہے‘‘۔ (کیفی اعظمی، دوچار باتیں ،آوارہ سجدے،ص۔ ۲۶۹)
ان کی نظم” مکان” کا ایک بند دیکھئے جس میں احتجاجی پہلو صاف ظاہر ہوتا ہے۔
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نید آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھوتم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
اس نظم میں ان کا احتجاجی انداز ان کی پہچان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ دراصل کیفی کو عام انسانوں سے کافی لگاو تھا بلکہ انسانیت ہی ان کا مذہب تھااور جب بھی ان کے ایمان وہ ایقان میں دخل اندازی ہوئی، ان کے لہجے میں تیزی اور تندی پیدا ہو گئی.
ہیر رانجھا کے ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ کیفی اعظمی نے شیام بینیگل کی فلم “منتھن ” کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریبا 75 سال کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے مشہور گیتوں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی، 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔۔
…..
کھلتے جاتے ہیں سمٹے سکڑے جال
گھلتے جاتے ہیں خون میں بادل
اپنے گلنار پنکھ پھیلائے
آ رہے ہیں اسی طرف جنگل
گل کرو شمع، رکھ دو پیمانہ
آج کی رات ہم کو سونے دو
…..
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
چھوٹ جانے دو جو دامان وفا چھوٹ گیا
کیوں یہ لغزیدہ خرامی پہ پشیماں نظری
تم نے توڑا تو نہیں رشتۂ دل ٹوٹ گیا
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
میری آہوں سے یہ رخسار نہ کمھلا جائیں
ڈھونڈتی ہوگی تمہیں رس میں نہائی ہوئی رات
جاؤ کلیاں نہ کہیں سیج کی مرجھا جائیں
……
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا