تلخیاں سیریز کا دوسرا افسانچہ پیش خدمت ہے
تلخیاں ۲
اہتمام صادق
شعبہء اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی-25
غالباً صبح کے آٹھ بج رہے تھے، ٹھنڈک اپنے شباب پر تھی، دسمبر کا پہلا ہفتہ گزر چکا تھا، مسِز قاسم معمول کے مطابق ناشتہ تیار کرنے میں مشغول تھیں اور اریبہ ابھی باتھ لے کر نکلی تھی. اس نے اپنے جسم پر ایک چادر لپیٹ رکھی تھی اور تولئے سے بالوں کو رگڑنے کا عمل جاری تھا. اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی.
اریبہ…دیکھنا بیٹا کون آیا ہے؟ کچن سے مسِز قاسم کی آواز آئی.
کتنی ٹھنڈک ہے پتا نہیں کیسے لوگ اتنی سردی میں گھر سے نکل پاتے ہیں، اریبہ نے دونوں ہاتھوں کو باہم رگڑتے ہوئے کہا.
واقعی آج موسم معمول سے زیادہ سرد تھا اور رہی سہی کسر یخ بستہ ہواؤں نے پوری کر دی تھی. اریبہ نے دروازہ کھول کر دیکھا ایک خاتون ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ لئے کھڑی تھیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کی عمر غالباً پانچ سال رہی ہوگی.
کون ہے اریبہ؟
پتا نہیں! کوئی آنٹی ہیں. اریبہ نے دروازے سے ایک طرف ہٹتے ہوئے کہا.
ارے صبیحہ تم : مسز قاسم کچن سے باہر نکلتے ہوئے چہک اٹھیں.
آپ نے پہچان لیا آپّی؟ میں نے تو سمجھا تھا اس لڑکی کی طرح آپ بھی کہہ دیں گی “پتا نہیں کون ہے،،
ارے نہیں میری بچی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور تو اس طرح کیوں باتیں کر رہی ہے: مسز قاسم نے صبیحہ کو گلے لگا لیا.
معاف کرنا خالہ دراصل اس سے پہلے کبھی آپ کو دیکھا نہیں تھا اس لئے پہچان نہ سکی: یہ کہتے ہوئے اریبہ وہاں سے ہٹ آئی.
ارے اریبہ سنو! تم جارہی ہو : مسز قاسم نے اریبہ کو چھپ کر نکلتے ہوئے دیکھ پوچھا.
جی امی!
ٹھیک ہے آج تھوڑی جلدی واپس آ جانا تمہاری خالہ جو آئی ہیں.
ٹھیک ہے امی. اس نے جلدی سے کہا اور باہر نکل گئی.
قاسم صاحب موجود نہیں تھے. اس نے باہر بیٹھے ایک معمر شخص سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ آپ کو تھوڑی دیر رکنے کا کہہ کر کہیں گئے ہیں.اریبہ وہیں پڑے بینچ پر بیٹھ کر قاسم صاحب کے آنے کا انتظار کرنے لگی. وہ صبیحہ کے متعلق سوچ رہی تھی کہ آخر یہ کون ہیں؟ اگر سچ مچ خالہ ہی ہیں تو اب تک امی نے ان کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتایا تھا؟ اور اب اچانک یہاں کیوں آئی ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات تھے جو اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے.
کہاں کھوئی ہو بیٹی؟ تمہارا فون بج رہا ہے: وہاں بیٹھے معمر شخص نے اسے آواز دی. اریبہ چونک پڑی، موبائل پر کوئی اجنبی نمبر ڈِسپلے کر رہا تھا.
ہیلو! اریبہ نے دھیرے سے بٹن پر دباؤ ڈالا اور موبائل فون کان کے قریب لے جا کر کہا.
آداب ڈئیر اریبہ : ایک مردانہ آواز گونجی.
کون؟ اریبہ کے لہجے میں تذبذب کی جھلک نمایاں تھی.
میں….خاکسار کو حفیظ یزدانی کہتے ہیں.
معاف کرنا یہ رانگ نمبر ہے اور مجھے آپ کی خاکساری سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے،سمجھ گئے : اریبہ نے قدرے درشت لہجے میں کہا.
ان عاشقوں سے بے رخی اچھی نہیں ہے یار.
تو حسن کی پری ہے ذرا کچھ خیال کر.
دوسری طرف سے احمد فراز کا ایک شعر توڑ مروڑ کر بڑے بھدے انداز میں پیش کیا گیا.
اریبہ نے کچھ کہنے کے ارادے سے ایک لمبی سانس لی لیکن قاسم صاحب کو آتے دیکھ کر فون کاٹ دیا.
پاپا! آج آپ کو کہیں جانا ہے؟ اریبہ نے کالج کے گیٹ پر بائک سے اترتے ہی سوال کیا.
کیوں؟
نہیں ایسے ہی، آپ اتنی تیز رفتاری سے کبھی نہیں چلتے نا.
اوکے تم جاؤ، اللہ حافظ. اتنا کہہ کر قاسم صاحب نے گاڑی گھمائی اور فراٹے بھرتے ہوئے غائب ہو گئے.
اریبہ نے مین گیٹ سے اندر داخل ہو کر اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں لیکن آس پاس کسی کو نہ پا کر موبائل کی طرف متوجہ ہو گئی جس پر پہلے سے ہی اس کی دوست نینا کے دو مِس کال تھے. اس نے اسے اطلاع دے کر کہ “میں مین گیٹ سے آ رہی ہوں،، فون رکھ ہی رہی تھی کہ سامنے سے نینا آتی دکھائی دی.
ہائے اریبہ! کیسی ہو؟ نینا نے دور ہی سے خیریت دریافت کی اور پاس بنے چبوترے کی طرف چلنے کا اشارہ کیا.
ہنہہ، میں ٹھیک ہوں.
ویسے تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ آج تمہارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے اور تم جلد سے جلد مجھے بتا دینا چاہتی ہو، نینا نے اریبہ کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا.
ہاں یار ! میں اپنی خالہ کے بارے میں سوچ رہی ہوں.
رک رک ایک سیکنڈ، یہ تیری خالہ کب پیدا ہو گئیں؟ نینا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا.
آج ہی، مطلب مجھے بھی آج ہی ان کے آنے پر معلوم ہوا کہ میری کوئی خالہ بھی ہیں.
خیر وہ سب چھوڑ، یہ بتا کہ یہ نمبر کس کا ہے؟ اریبہ نے وہ نمبر اسے دکھایا.
پتا نہیں، تمہارے کسی عاشق کا ہوگا، نینا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا.
شٹ اپ یار، اریبہ نے کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگی.
فون کر لو خود ہی پتا چل جائے گا، یوں تو نینا نے اسے مشورہ دے دیا مگر پھر سوچ میں پڑ گئی کہ آج تو اس کی چوری پکڑی گئی اور پھر اس نے خود اریبہ کو سب کچھ بتا دیا کہ وہ فون اسی نے کیا تھا اور حفیظ یزدانی کوئی اور نہیں وہ خود تھی اور پھر دونوں بہت دیر تک ہنستی رہیں…
صبیحہ کے آنے سے پورے گھر کا ماحول بالکل بدل گیا تھا. ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں. اریبہ کو نِمرہ کی شکل میں ایک ننھی سی گڑیا مل گئی تھی جسے وہ ہمیشہ چمٹائے رہتی تھی.
مِسز قاسم کی بھی خوشی قابلِ دید تھی لیکن اریبہ اور مِسز قاسم کی خوشیوں میں خاصا فرق تھا. اریبہ کی خوشیاں باہمی رشتے کے مخلصانہ جذبے کی وجہ سے تھیں جبکہ مِسز قاسم شاید اس وجہ سے زیادہ خوش تھیں کہ انہوں نے وہ جنگ جیت لی تھی جو برسوں سے ان کی بہن صبیحہ اور ان کے درمیان جاری تھی.
آپا! ہم لوگوں کو آئے ہوئے کتنے دن ہوئے ہوں گے؟ صبیحہ نے ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے مِسز قاسم سے پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر بولی،
‘میرا خیال ہے کہ ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے،
ہاں، تو کیا ہوا؟
نہیں، وہ، میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ کتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد ہم ساحل کو ساؤتھ افریقہ بھیج پائے ہیں.
ہنہہمممم.
شام کو اس کا فون آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ ‘آج اسے پہلی تنخواہ ملی ہے،
مبارک ہو، مِسز قاسم نے خوش ہوتے ہوئے کہا.
صبیحہ نے مِسز قاسم کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا. اس کو جہاں حیرت و استعجاب کی تلاش تھی وہاں صرف خوشیاں تھیں یہ اور بات کہ ان خوشیوں کی تہہ میں کیا تھا یہ صبیحہ پر عیاں نہ تھا.
آپا! اریبہ اور ساحل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ صبیحہ نے ناشتے کی میز سے اٹھتے ہوئے پوچھا.
کیسا خیال؟
یہی..اگر… دونوں کی…. شادی کر دی…جائے تو. صبیحہ نے رک رک کر کہا.
صبیحہ….وہ ابھی بچی ہے،اس کا تو خیال تک ہمارے ذہن میں نہیں گزرا، وہ ابھی پڑھ رہی ہے اور قاسم اسے پڑھانے کے در پہ ہیں اور ویسے بھی میں بغیر مشورے کے اس کا جواب نہیں دے سکتی پتہ نہیں قاسم نے کیا سوچا ہے……………..
مطلب یہ ایک طرح سے انکار ہے.
دیکھو صبیحہ اسے پڑھنے کا شوق ہے اور ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے اور اس سے آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا حق چھین لیا جائے.
ہنہہ! جیسی آپ کی مرضی.
آج اریبہ معمول سے پہلے اٹھ گئی تھی. ٹھنڈک بہت زیادہ ہونے کے سبب جب اس نے بستر سے باہر قدم رکھا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی. اس نے فوراً جاکر گریزر کو آن کیا اور مِسز قاسم کو آواز دی.
کیا ہوا؟ مِسز قاسم کی آواز آئی.
امّی آج میرا پریکٹیکل ہے اور آپ نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں تیار کیا. اریبہ نے شکایت بھرے انداز میں کہا.
تو کل ہی کیوں نہیں بتایا تھا.
ام……می….
اچھا…جا تو تیار ہو تب تک میں ناشتہ بنا دیتی ہوں اور ہاں اپنی خالہ کو بھی اٹھا دینا، کہہ کر مِسز قاسم اٹھ کھڑی ہوئیں.
اریبہ جب پیپر دے کر نکلی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا پورا وجود خوشیوں سے سرشار ہے. نینا ابھی اِگزام ہال سے باہر نہیں آئی تھی. وہ دھوپ میں کھڑی اس کا انتظار کرتی رہی اور کچھ وقت تک جب وہ باہر نہیں آئی تو اریبہ نے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا اور نینا کو میسیج کے ذریعے مطلع کر کے گھر کے لئے نکل پڑی.
جب وہ گھر میں داخل ہوئی تو مِسز قاسم کو منتظر پایا.
یہ حفیظ یزدانی کون ہے؟ مِسز قاسم نے سوال کیا.
اریبہ اس غیر متوقع سوال سے ہڑ بڑا گئی اور اس کی زبان سے صرف اتنا ہی نکل سکا “کیوں؟،،
کیوں کہ تم اس سے چوری چوری باتیں کرتی ہو، وہ تو آج صبیحہ نے تمہارا فون اٹھا لیا ورنہ ہمیں تو کچھ خبر ہی نہیں تھی کہ تم کالج میں جاکر کیا کیا گل کھلا رہی ہو……….، مِسز قاسم کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا تھا اور وہ مُسلسل بولے جا رہی تھیں.
نہیں امّی….میں کسی لڑکے سے بات نہیں کرتی ہوں، آپ میرا یقین کریں، اریبہ نے روتے ہوئے کہا.
تو پھر یہ حفیظ یزدانی کون ہے؟ اریبہ کے آنسوؤں اور سسکیوں کے اثر نے مِسز قاسم کا لہجہ دھیما کر دیا تھا.
وہ…..میری… دوست…نینا….تھی مگر صبیحہ خالہ……..اریبہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا.
وہ لڑ جھگڑ کر اپنے گھر چلی گئی، اسی نے صبح فون اٹھایا تھا اور تمہارے جانے کے بعد مجھ سے شادی سے انکار کی وجہ پوچھی، میں نے تمہاری پڑھائی کے بارے میں کہا تو اس نے یہ سب………………..مِسز قاسم کہتی رہیں اور اریبہ اس بُت کی مانند کھڑی رہی جس کے مصنوعی کانوں سے آوازیں تو ٹکراتی ہوں مگر سننے اور سمجھنے سے قاصر ہو۔۔۔۔۔۔