کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک: عرفان صدیقی
طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان
عرفان صدیقی نئی اردو زغزل کے وہ شاعر ہیں جو منفرد و ممتاز، عظیم و معروف جیسے تمام لاحقوں سے بالاترہیں۔ جن کو آج کل ہر کس و ناکس کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔عرفان صدیقی کو 1970 کے بعد کی غزل کا اہم شاعر تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ عہد میں ان جیسا شاعر پورے ہندو پاک میں کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ لیکن نئے شعر و ادب سے متعلق رسالوں کی ورق گردانی میں ان کے فن سے انصاف کرنے والے مضامین خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ یعنی بڑے ناقدین میں بیشتر کے قلم عرفان کی شاعری کے سلسلے میں اب بھی خاموش ہیں ۔
عرفان صدیقی گیارہ مارچ 1939 میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایم اے تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1962 میں انڈین انفارمیشن سروس میں شامل ہوئے۔ 1997 میں وہ اس ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور پھر عملی صحافت سے وابستہ ہو گئے۔
آؤ ان پر سخن آباد کا در کھولتے ہیں
لفظ مر جاتے ہیں فرہنگ میں رہتے ہوئے بھی
عرفان صدیقی کے والد سلمان احمد ہلالی بھی اردو کے خوش گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ نیاز بدایونی ان کے بڑے بھائی اور محشر بدایونی اور دلاورفگار ان کے قریبی اعزّا میں شامل تھے۔
سائنس اور آرٹ دونوں کی معراج صنعت ہے، لیکن دونوں کے فارمولے الگ الگ ہیں۔ عرفان صدیقی کے نزدیک بھی شاعری تخلیق سے زیادہ صناعی ہے۔ الہامی سے زیادہ اختراعی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی شاعری کا نظم خود تشکیل دیتے ہیں۔
ابھی سے راستہ کیوں روکنے لگی دنیا
کھڑے ہوئے ہیں ابھی اپنے روبرو ہم لوگ
مری شاعری مری عاشقی ہے سمندروں کی شناوری
وہی ہمکنار اسے چاہنا، وہی بیکراں اسے دیکھنا
عرفان صدیقی کا عشق حقیقی ہے جس میں انسانی روح کا سوز و ساز ہے ۔
عرفان صدیقی کے یہاں نظم و ضبط کے ساتھ ارتقاء نظر آتا ہے جو عشق کے مختلف زاویوں کو نمایاں کرتا ہے ۔ اس کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے جن سے میرا موقف واضح ہوجائے گا۔
جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی میرا مقدر روشنی
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے
یاد آئیں جو تری کم سخنی کے انداز
اپنے ہی آپ سے مصروف سخن ہوجاؤں
عرفان صدیقی کی غزل گوئی کے فن کے سلسلے میں صرف کہوں گی کہ انھوں نے کلاسیکی شاعری کا تتبع اس طور کیا ہے کہ ان کی شاعری میں حسن پیدا ہوگیا ہے ۔ ایسی شاعری میں وہ بڑے شاعروں کے محض مقلد نظر نہیں آتے ۔ اس ضمن میں انہوں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔
نقش پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے
ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں
عرفان صدیقی کی شاعری کی عظمت کو پہچاننے میں زمانے لگ گئے اور جب پہچانا گیا تو بھی اس کی اس طرح قدر نہیں ہوئی جواس کو سزاوار تھا۔ خیر، یہ تو ایک یونیورسل المیہ ہے اور یہ شکوہ غالب سے لے کر عرفان تک سبھی کرتے آئے ہیں۔
’’کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا‘‘ غالب
’’فائدہ عرض ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا‘‘ عرفان صدیقی
مزید ظلم یہ ہوا کہ کربلا کے استعارات و تلمیحات کی بنا پر عرفان صدیقی کو محض ایک مرثیہ نگار کی حیثیت اور مقام تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی، جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ نوحہ و مرثیہ ان کی شاعری کا جزوی حصہ ہے، کُل نہیں۔
عرفان کے محبت کے منزل کا ارتقاء ان اشعار میں ملاحظہ ہوتا ہے۔۔
ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے
اور انھیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے
مرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
عرفان صدیقی محبوب کو دنیا سے چھپانے اور اپنے عشق کی تشہیر سے بچنے کی ناکام کوشش میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں عشق باعث ننگ یا باعث رسوائی نہیں بلکہ اس پوشیدگی کے عمل میں عرفان کا تکلف جھلکتا ہے۔
عرفان صدیقی کی شاعری کے پانچ مجموعے کینوس، شب درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ اور ہوائے دشت ماریہ اور کلیات دریا، شہر ملال کے نام سے شائع ہوئے تھے۔چند برس پہلے ان کی شاعری کا کلیات ’دریا‘ کے نام سے پاکستان میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔
عرفان صدیقی ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ انہوں نے کالی داس کی ایک طویل نظم ’رت سنگھار‘ اور کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا تھا۔اردو کے اس ممتاز طرزشاعر کا انتقال 15 اپریل 2005ء کو لکھنوء میں ہوا۔۔
…..
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی
میں آنے والی دنیا کوبھی تخمینے میں رکھتا ہوں
بھول جاوٴ کہ یہاں رہتے تھے کچھ دوسرے لوگ
کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ
…….
چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا
آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا
یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا
اک اسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دھوپ عذابوں کا
…..
ا یسا تونہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تن ِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی
پیش ِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی
تیرے بغیر بھی غم ِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی
ہم کون پیر ِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نہیں ہوئی
کیا سہل اُس نے بخش دیا چشمہ ِحیات
جی بھر کے سیر ِ وادی ِظلمات نہیں ہوئی
میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نہیں ہوئی
اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزت ِ سادات نہیں ہوئی
یاقوت لب تو کار ِ محبت کا ہے صلہ
اُ جرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی
کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوجییے
اب تک تری طرف سے شروعات نہیں ہوئی
….
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے