طوبیٰ سہیل کی تین نظمیں

طوبیٰ سہیل کی تین نظمیں پیش ہیں، یہ بالکل نئے انداز و اسلوب کی نظمیں ہیں ،ان میں آپ کو کسی کا عکس یا کسی کا تتبع نظر نہیں آئے گا۔  یہی اصلیت اور سچائی ان کی اب تک کی کمائی ہے اور اگر لکھنے کا یہی جنون اسی ایمانداری سے قائم رہا تو بہت جلد طوبیٰ نئے شاعروں کی صف میں اہم مقام حاصل کر لیں گی۔۔۔تین نظمیں پڑھیں ۔۔۔

 

 

 

 

نظم نمبر ایک

 

 

بیمار سایہ

 

 

بنجارا سایہ

پس پیوند

ٹھہرا بیچارا

فانوسی محل کے پرے

آشیانے میں

علیل پڑا

خود کو ٹٹول رہا ہے

غور سے سننے پر

سماعت سے

بھرپور

پرخاص سا

سلوگن سنائی دے رہا ہے

سایہ جو خود کے ہی

سائے کو

ڈھونڈ رہا ہے

کھوکھلا احساس

اس کی قبر کو

دگنا گہرا

کیے جا رہا ہے

سنائی چیخ بھی

نہیں دیتی ہے

تلاش گمشدہ

سر پرور

عروج پر ہے

طوبی رشتہ

پگڈنڈی کو

مضبوط کیے رکھے ہے

ارادے بیمار نظر

آتے ہیں

زنجیر کا زور

کاٹ رہا ہے

تاڑ رہا ہے

میرا سایہ

اپنے ہی سایے سے

بھاگ رہا ہے

 

 

نظم نمبر ۲

 

 

ایوان نظم و صدا

 

 

بنا ایک افسانہ

سہ پہر اسناد کا

سہیلی کے امکان کا

گنجان شب کے

سوئے ارمان کا

کھول کر کواڑ

بہاو حوض کا

لے کر قلم

نحیف ہاتھوں میں

گاو راگنی

میرے ہم نوا

تیری صدا

ہوئے گونج گونج

میرے روم روم

میرے الفاظ کی

وہی تگ و دو

جو پھرے پھرے

تیری ضو پیٹ کے

پرے پرے

تیری عسل آواز کو

ملا ہے جو زاویہ

وہ حدت سرور

دربدر

میرے وجود کی

 اڑائےدھجیاں

اڑان بھرے عقاب کی

ممنونم

میری نظم کے

عروج بھررے

لفظوں کی

ٹوٹی ہوئی

چند کشتیاں

ملا ہے مل کر

اسے

ایوان نظم و صدا

 

 

نظم نمبر ۳

 

 

کراچی

 

چم چم کرتی

بتیاں نظر آتی ہیں

خلا میں ہوا کا

اک رجحان بڑھتا ہے

شور و غل کے میکدے

دلی کی خوشبو سے

مہکتے ہیں

گمان ہوتا ہے

کچھ اور نہیں

وہی شہر ہے یہ

اپنائیت ہے جس میں

منسلک جہاں کے لوگ

ہیں ملنسار بہت

رت جگا ہے بے پہرہ

یہ شہر وہ

سپنوں سے

جو ہے بھرپور

نسبت دل کی

اس سے ایسے

تیتلیوں کی

پھول سے جیسے

پھول بھی حسین  ایسے

چاندنی رات گئے

سمندر کی دوبد جیسے

نمی آنکھوں کی

تلملاہٹ روشنی کی

ہر آنگن میں

چمکتی جو

الفت کے دیے سے

یاری پرندوں کی

شاہ غازی سے

صدیوں پرانی یہاں

دھوم مچی بازاروں میں

زمزمہ حیدری گلف

کہ چوباروں میں

دل دھڑکے

نیٹی جیٹی کے پل پر

حادثات بھی وہی پر گونجیں

فرنگی ترنگی

مزار کی حجت

بابائے قوم کی فطری لذت

گماں میں لاتی

یہ شہر ہے وہ

نام جس کا

ہے کراچی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • TAGS
  • جدید شاعرہ
  • طوبی سہیل
  • طوبیٰ سہیل کی تین نظمیں
  • نثری نظم
SHARE
Previous articleجامعہ کے طلبہ کی قابل ستائش کوشش
Next articleنشانے پر ریڈیو

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here