طوبی سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسیٹی۔۔ پاکستان
جلیل مانک پوری ضلع پرتاب گڑھ یوپی کے قصبہ مانک پور کے رہنے والے تھے۔ جلیل مانک پوری 1862ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت جلیل نے کم سنی میں ہی قرآن حفظ کیا۔ آپ نے اُردو اور فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔جلیل کوبچپن سے ہی شعر گوئی سے بڑی رغبت رہی۔ چنانچہ وہ کم عمری میں ہی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے۔
جب جلیل تعلیم کے سلسلہ میں لکھنو روانہ ہوئے تب لکھنو میں حضرت امیر مینائی کا ایک بلند مقام تھا۔ امیر اپنی نازک خیالی اور قدرت کلام کی وجہ وہ ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانے گئے۔ شروع شروع میں حضرت جلیل اپنا کلام بغیر اصلاح مشاعروں میں سنایا کرتے تھے۔ ویسے یہ کلام بھی اس معیار کا ہوتاتھا کہ اس کواصلاح کی کوئی خاص ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔مگرپھربھی آپ نے حضرت امیر مینائی کے آگے اپناکلام پیش کیا۔حضرت جلیل کے کلام کوامیرمینائی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ جلیل مانکپوری کی خوش بختی یہ تھی کہ انھیں امیر مینائی جیسا درویش صفت استاد ملا اور میر محبوب علی خان آصف اور میر عثمان علی خاں جیسے ادب پرور فرماں روایان حیدرآباد کی سرپرستی حاصل ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ جلیل کی فکری ہیئت اور تخیلاتی نہج کو بلندپروازی حاصل ہوئی. جلیل نے اردو شاعری کی روایت کو توانا اور مستحکم بنانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا. جلیل نے والد بزرگوار سے اجازت حاصل کی اور رامپور روانہ ہوئے۔
رام پور میں رہائش پذیر شعراء کو شعر وسخن کی محفلیں بہت عزیز تھیں۔ انہو ں نے عالموں سے محفلیں سجائے رکھی تھیں ۔ داغ دہلوی رامپور چھوڑ چکے تھے۔ اس طرح کی ادبی وشعری صحبتوں میں جلیل کے ذوق شاعری نے بڑی مقبولیت وشہرت حاصل کی. حضرت جلیل نے بڑی محنت ولگن کے ساتھ امیر اللغات کی اشاعت عمل میں لائی۔مانک پوری نے رباعیات کا ایک مجموعہ ’’گلِ صد برگ‘‘اور دینیات کا رسالہ ’’تعلیم الصلوۃ‘‘ سے بھی علمی دنیا کو نوازا ۔ محاورات کا مجموعہ ’’معیار اردو‘‘کی تصنیف کے ذریعہ صحیح محاوروں کے ادراک سے ادب پسندوں کو روشناس کرایا ۔ مندرجہ بالا گیارہ تصنیفات کا ذکر نیاز فتح پوری کے رسالہ ’’نگار‘‘ جنوری فروری 1941 کے صفحہ نمبر 80 پر ملتا ہے. جلیل مانکپوری اپنے منفرد انداز میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں :۔
حسن دیکھا جو بتوں کا تو خدا یاد آیا
راہ کعبہ کی ملی ہے مجھے بت خانہ سے
جلیل مانکپوری کی شخصیت سادگی کا پیکر تھی ۔انکساری ، بردباری ، تحمل ، قناعت ، خلوص، راست بازی اور تقوی و پرہیزگاری ان کی شناخت کے وہ عناصر تھے جو ایک درویش صفت انسان میں پائے جاتے ہیں اور یہ تمام صفات جلیل مانکپوری کی مثالی شخصیت کا حصہ تھیں ۔ ان کی درویشانہ زندگی اور قناعت پسندی کا اعتراف بڑے بڑے مشاہیر نے کیا ہے ۔ قاضی عبدالغفار جلیل کی شخصیت کی پاکیزگی کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے :۔
’’وہ (حضرت جلیل) ایک درویش صفت انسان تھے اور ان کی درویشا نہ شان جن لوگوں نے دیکھی ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ شخصی حیثیت سے ان کا مقام بلند و برتر تھا اور شاعری سے بھی بلند و بالا تھا‘‘
جن دنوں جلیل حیدرآباد میں رہائش پذیر تھے ان دنوں علمی و ادبی سرگرمیوں کا بول بالا تھا. مرزا داغ دہلوی فصیح الملک کا لقب پاکر استادِ شاہ بن چکے تھے. ان دنوں حیدرآباد میں مشاعروں کا بہت زور تھا. جلیل کی پہلی غزل تھی جس کا مطلع یوں تھا
اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
اے شوخ چشم پھونک دے برق نگاہ سے
اس کے علاوہ غزل کے کئی اشعار اور تحسین کے مستحق قرار دیئے گئے.
’’جلیل کی شخصیت کی تشکیل میں ان کے فن اور ان کی سیرت دونوں نے برابر کا حصہ لیا ۔ انسانی سیرت و اخلاق پر توارث اور ماحول دونوں کم و بیش اثر انداز ہوتے ہیں.
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسن یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
خوش قسمتی سے آپ کو بہتر توارث اور اچھا علمی ماحول، اعلی درجہ کی تربیت گاہیں اور شائستہ قسم کی صحبتیں میسر آئیں ۔ آنکھیں کھولیں تو گھر کا علمی ماحول اور دینداری دیکھی.
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
جلیل پر اگرچہ شاعری کا بڑا احسان ہے کہ جو کچھ شہرت ہے وہ اسی کی بدولت ہے ، لیکن درحقیقت وہ شاعر سے زیادہ انسانِ کامل تھے۔ اپنی درویشانہ شان اور عمل کی بدولت و شاعر نہ بھی ہوتے تو یقیناً ایک بڑے عالم اور مرشد کامل جانے جاتے. جلیل کی شاعری میں ساقی ، شراب ، میخانہ اور جام دو آتشہ وغیرہ کا ذکر بار بار آتا ہے لیکن ان کی زندگی ایک درویش شب زندہ دار اور ایک صوفی کی مکمل تصویر تھی۔
اب غرق ہوں میں آٹھ پہر مے کی یاد میں
توبہ نے مجھ کو اور گنہ گار کر دیا
جلیل کی نعتیہ شاعری بڑی تقدس واحترام کی حامل ہے۔ اشعار کے مطالعہ سے ایمان حرارت کوجلا ملتی ہے۔ چند اشعارملاحظہ ہوں۔
نعت گوئی پہ مری سب کوگماں ہے کہ جلیل
فیض ہے اس میں امیرؔ الشعراء سے مجھ کو
داغ کے انتقال کے بعد جلیل نے دربار دکن میں داغ کی جگہ لی۔ وہ میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں (والیانِ دکن) کے استاد رہے۔ دربار دکن سے فصاحت جنگ کا خطاب پایا۔ 1946 میں یہیں وفات پائی۔
…..
بام پر تھے وہ کھڑے لطف دوبالا ہوتا
مجھ کو بھی دل نے اچھل کر جو اچھالا ہوتا
کیسے خوش رنگ ہیں زخم جگر و داغ جگر
ہم دکھاتے جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
دل نہ سنبھلا تھا اگر دیکھ کے جلوہ اس کا
تو نے اے درد جگر اٹھ کے سنبھالا ہوتا
تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے
لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
تم نے ارمان ہمارا نہ نکالا نہ سہی
اپنے خنجر کا تو ارمان نکالا ہوتا
دل کے ہاتھوں نہ ملا چین کسی روز جلیلؔ
ایسے دشمن کو نہ آغوش میں پالا ہوتا
……
کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق
نہ وہ دماغ نہ وہ دل نہ وہ زمانۂ عشق
ہوا ہے شہر خموشاں میں جب گزر میرا
سنا کیا ہوں لب گور سے فسانۂ عشق
خیال رخ پہ ہے موقوف دل کی آبادی
کبھی نہ گل ہو الٰہی چراغ خانۂ عشق
بھرے ہوئے ہیں حسینان سیم تن دل میں
خدا کرے کبھی خالی نہ ہو خزانۂ عشق
گئی دماغ میں جس کے کیا اسیر اسے
عجب کمند ہے بوئے شراب خانۂ عشق
کہیں ہے داغ کا مضموں کہیں ہے سوز کا ذکر
سنو نہ تم کہ بہت گرم ہے فسانۂ عشق
…..
چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
اندھیر ہوگا اس سے اگر ہو گیا بگاڑ
عاشق کو ہر طرح ہے مصیبت کا سامنا
اچھا ترا ملاپ نہ اچھا ترا بگاڑ
میں کیوں کروں کسی کو مکین مکان دل
میں کیوں کہوں کسی سے کہ تو گھر مرا بگاڑ
موقوف ایک دو پہ نہیں یار کا عتاب
اس سے جدا بگاڑ ہے اس سے جدا بگاڑ
ہوتی تھی عاشقوں میں بڑے لطف سے بسر
بیٹھے بٹھائے آپ نے کیوں کر لیا بگاڑ
ایسے مریض عشق کا کس سے علاج ہو
پیدا کرے مزاج میں جس کے دوا بگاڑ
اچھوں میں عیب بھی ہو تو داخل ہنر میں ہے
رکھتا ہے سو بناؤ تری زلف کا بگاڑ
اچھا ہوا جلیلؔ سے تم صاف ہو گئے
اغیار نے تو ڈال دیا تھا برا بگاڑ
…..