غالب: کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا

غالب: کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا

غالب کی یوم پیدائش پر خاص

 

طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان

طوبی سہیل

 

کہا ہے کِس نے کہ غالب بُرا نہیں ، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہی

ادب و فن کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی اُن کی خدمات کے سبب انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے فکری سرمائے، اپنی ناقابل فراموش تحریروں، اپنی ہمیشہ روشنی پھیلاتی ہوئی شاعری اور فن کے ذریعے زندہ رہتے ہیں۔
برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں ترک نسل سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں مرزا اسد اللہ خان کا چراغ روشن ہوا. کچھ تخلیق کار اپنے وقت کے ممتاز و ممیز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک مرزا غالب بھی ہیں.
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا اصل نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبد اللہ بیگ تھا۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے۔ ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810 میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی. غالب کے دور میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا ان مایوس کن حالات میں غالب نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفرد اور اچھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا. اپنے عہد کو اپنی صدی کی پہچان بنانے والے غالب اک منفرد شخصیت تھے اس انفرادیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی ہنرمندی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

یہ سوال بنیادی تھا، فضائے ادب میں اسکی صدا گونجتی رہی۔ خود غالبؔ کے شاگرد حالی نے جواب میں پوری کتاب لکھی.جواب لوگوں کو پسند آیا مگر ہر نسل کو اپنے سوال کے لیے نیا جواب چاہیے۔ حالیؔ کے بعد نئے جواب کے لیے عبدالرحمن بجنوری اُٹھے اور غالبؔ کو معلم غیب بنا دیا۔ ان کو بھی بہت داد وصول ہوئی۔ تب سے جوابوں کا سلسلہ بندھا ہوا ہے۔ ہر ادیب، شاعر، پروفیسر، نقاد جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے، یہاں تک کہ نوکر شاہی کے افسر، سیاست داں اور تاجر بھی۔.
غالب عام طور پر مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہو گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں

دام شنیدن ، گرمئی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالب کی شاعری مشکل سمجھی گئی. غالب کی شاعری میں وزن کا تعلق فارسی الفاظ کے استعمال سے تو ہے ہی لیکن ان کی شاعری میں جو فکری گہرائی ہے وہ انہیں دیگر شعراء سے ممتاز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے

پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے کہ غالب کو بڑا شاعر کہلانے سے زیادہ فکر یہ تھی کہ لوگ اسے بڑا رئیس زادہ مان لیں۔ جہاں بہادر شاہ کی بادشاہی خطرے میں ہو، وہاں سات سو روپے سالانہ آمدنی اور خیالی افراسیابی پر غالب کو کون مانے۔ خیر، ریاست نہ سہی شاعری سہی۔غالب کو محسوس ہوتا تھا کہ تقدیر اس کے خلاف ہے۔ زمانہ اس کے خلاف ہے، بلکہ خود خدا اس کے خلاف ہے، اس لیے غالب نے سب سے ایک پیکار باندھ رکھی ہے۔ حریف بڑے سخت تھے مگر غالب کے کیا کہنے، کس کس طرح لڑا ہے۔ کبھی چیختا چنگھاڑتا ہے، کبھی صلح پر آمادہ ہو جاتا ہے، کبھی طنز کے تیر و نشتر الٹا لیتا ہے، کبھی خوشامد کرنے لگتا ہے، کبھی ماتم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی بالکل سپر انداز ہو جاتا ہے۔ مگر تقدیر، زمانے اور خدا سے اس جنگ میں غالب ، غالب بن گیا۔

اسے اپنے اوپر تین فخر تھے۔
۱۔ اعلیٰ خاندانی یعنی رئیس زادہ ہوں۔
۲۔ شاعر ہوں اور
۳۔ انسانوں سے محبت کرتا ہوں۔

غالب کی شخصیت انھی تین ستونوں پر کھڑی ہے اور غالبؔ نے ان ستونوں پر اتنا بلند و بالا قلعہ بنایا ہے کہ اس کے کنگرے آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں. غالب کی انا بہت بڑی تھی۔ اس انا نے بہت بڑے خیالات کا بوجھ اٹھایا۔ یہ اتنے بڑے خیالات ہیں کہ میدان عمل میں ظاہر ہوتے ہیں تو بابر اور اکبر اعظم جیسے لوگ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ غالب تخیل کی دنیا کا اتنا ہی بڑا آدمی تھا۔ اس کے خیال کی وسعت بے کنار ہے۔ اور مملکت ادب میں سلطنت مغلیہ کی طرح پھیلی ہوئی ہے. غالب کو دعویٰ ہے کہ وہ نوع انسانی کا پرستار ہے، اس سے محبت کرتا ہے، اس کے درد سے پگھلا جاتا ہے. غالب کے دیوان میں کسی ایک جگہ بھی یہ احساس نہ ہوا کہ غالب گوشت پوست کے انسانوں کے سچے درد سے ایک بار بھی پگھلا ہے۔ سوائے ’’درد سے تیرے ہے مجھ کو بے قراری ہائے ہائے ‘‘ والے بے مثال مرثیے کے۔ یہاں غالبؔ کو سچ مچ محبت کا فیض پہنچ گیا ہے۔ کیا مرثیہ ہے۔ اردو شاعری ایسے سچے درد کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کم بخت غالب ایسا ہے کہ اسے کسی طرف سے بھی گھیریے کہیں نہ کہیں سے، سی نہ کسی طرح نکل ہی بھاگتا ہے۔ اس مرثیے میں غالب کی انانیت کہاں چلی گئی ہے، وہ اپنے پندار، اپنی برتری، اپنی زندگی کی ناکامیوں، مجبوریوں اور ان سے پیدا ہونے والے بڑ بولے پن یا خود رحمیوں کو کیسے بھول گیا ہے؟۔ یہ غالب کی کتاب زندگی کا راز ہے۔
غالب نے شاید دو صرف سچ مچ کے انسانوں سے محبت کی۔ ایک اس مرثیہ والی محبوبہ اور دوسرے جناب میرؔ. اردو ادب کی اس صنف مکتوب نگاری میں غالب کے خطوط کو نمایہ مقام حاصل ہے . غالب کے خطوط کے دو مجموعے [عود ہندی] اور [اردوئے معلیٰ] کے نام سے شائع ہو کر مقبول عام ہو چکے ہیں. اُ ن کا اسلوب خود ساختہ ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ مشاہدہ بہت تیز ہے. ایک خط میں اپنے ماحول کے متعلق یوں رقمطراز ہیں، ” میں جس شہر میں ہوں، اس کا نا م دلّی اور اس محلے کا نام بلّی ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں نہیں پایا جاتا۔ واللہ ڈھونڈنے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا اہل حرفہ۔ اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں”۔


کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں مرزانے 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔

چند منتخب اشعار

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب‬
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ‬
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

قید حیات و بند غم، اصل میں دونوں ایک ہیں‬
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

….

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

…..
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
……
کعبے میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو
غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ ملخ کھاے کشت کو
…..
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

  • TAGS
  • birth anniversary
  • galib
  • galib article
  • galib birth
  • galib birth anniversary
  • galib poetry
  • meer
  • mirza galib
  • tooba suhail
  • طوبی
  • طوبی سہیل
  • غالب
  • کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا
  • مرزا غالب
  • مرزا نوشہ
SHARE
Previous articleاپوزیشن کی غیرموجودگی میں طلاق ثلاثہ مخالف بل منظور
Next articleآج کی پانچ اہم خبر۔۔۔۔ بس ایک کلک میں

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here