تاریک راتوں میں دھیمے لہجے میں گنگنانے والا شاعر: منیر نیازی

منیر نیازی کی یوم وفات پر خاص۔

طوبی سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسیٹی۔۔ پاکستان

عہد ساز شاعر منیر نیازی اپنے اسلوب طرز احساس اور زبان و بیان کے اعتبار سے نظم و غزل کے بے مثال شاعر ہیں۔
منیر نیازی 19 اپریل سنہ 1926 کو غیر منقسم ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں وہ کئی اخبارات و ریڈیو اور بعد میں ٹیلیویژن سے وابستہ رہے۔کون جانتا تھا کہ تقسیم کے بعد ہوشیار پور سے ہجرت کر کے آنے والا منیر نیازی ساہیوال میں کتابوں کی دکان کھولے گا اور بعد میں پاکستان نیوی جیسے ادارے کی ملازمت کو خیر باد کہتے ہوئے لاہور کے رائل پارک میں ڈیرہ جمائے گا۔
ساہیوال میں انہیں مجید امجد، انجم رومانی اور صدیق کلیم جیسے شعراء اور ادباء سے ربط و ضبط کا موقع ملا. منیر نیازی لاہور آکر لاہوری نہیں ہوئے بلکہ نیازی ہی رہے۔ لاہور ان کا ہوگیا۔ لاہور، پاکستان اور پاکستان کا اردو ادب منیر نیازی کی دسترس میں تھا۔لاہور میں بھی منیر نیازی نے ایک اشاعتی ادارہ ”المثال” کے نام سے قائم کیا جس نے چند کتابیں نہایت اہتمام سے دیدہ زیب انداز میں شائع کیں۔ ان میں ن م راشد کی کتابوں کو حوالے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منیر نیازی کی تخلیقی شخصیت کاروباری داؤ پیچ سے زیادہ مناسبت پیدا نہ کر سکی۔ اس لیے یہ ادارہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ منیر نیازی نے دوسری کوشش ”مکتبہ منیر” کے نام سے کی لیکن یہ ادارہ بھی نہ چل سکا۔ ایک مرتبہ کسی نے منیر نیازی سے پوچھا کہ اس دور کا پنجابی کا سب سے بڑا شاعر کونسا ہے؟ منیر نیازی اپنے مخصوص انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’کنوں پچھدا پیا ایں‘‘؟(کس سے پوچھ رہے ہو؟) گویا پنجابی کے سب سے بڑے شاعر ہی سے بڑے شاعر کا نام پوچھ رہے ہو.
منیر نیازی ایک عالمگیر ادبی شخصیت تھے۔ کچھ لوگ انہیں مہم جو کہتے ہیں انہوں نے ادب کے نئے استعاروں سے تعارف کروایا. کہتے ہیں کہ شاعر و ادیب اپنے عہد کا نباض ہوتا ہے۔ اس کی تخلیقات میں اس کے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔عہد کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس جو بہت سے معتبر ماخذ ہوتے ہیں ان میں ایک ماخذ ادب بھی ہے. ادب کے تخلیقی طریقوں سے منیر نیازی نے اپنے خیالات یوں بیان کیے ہیں کہ آپ بیتی جگ بیتی معلوم ہونے لگتی ہے۔ہوشیار پور کی بستی کے خدوخال میں پوری آب و تاب سے ہمیں منیر نیازی کی شاعری آباد نظر آتی ہے۔ راتوں کی تاریکی گھنگھور گھٹائیں بستی کے ویران گھر، سنسان گلیاں اور گلی کے آخری سرے پر نامعلوم خوف کے سایے یہ عناصر وہ ہیں جن سے منیر نیازی کی شعری کائنات کا خاکہ تیار ہوتا ہے۔
منیر نیازی کی پہلی کتاب ’’تیز ہوا اور تنہا پھول‘‘ اپنے نام کی استعاراتی معنویت کے اعتبار سے بھی قابل توجہ ہے۔ کتاب کا نام شاعر کی انفرادیت کو نمایاں کر رہا ہے۔ اور خو د شاعر کو بھی اس بات کا شعوری ادراک حاصل ہے کہ اس کے اردگرد کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔منیر کی شاعری پڑھ کر ہر کوئی اپنے تئیں اپنے اپنے محبوبوں میں کھوجاتا ہے۔
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہو گی منیر نیازی کا نام ضرور یاد آئے گا۔منیر کے چچا منظور احمد جو فوج میں کرنل تھے ان کی خواہش تھی کہ انہیں بھی فوج میں ملازمت مل جائے۔ اس لیے انہوں نے محمد منیر کو رائل انڈین نیوی میں بھرتی کرا دیا۔ چونکہ محمد منیر خاں کی طبیعت ضابطے میں ڈھالنے کے لیے نہیں بنی تھی اس لیے وہاں سے بھاگ نکلے، پکڑے گئے، سزا ہوئی مگر سزا نے منیر کے اندر بغاوت کے جذبے کو مزید طاقت دے دی. ایک بار پھر بھاگ نکلے۔ اس بار کامیاب ہو گئے۔ کافی عرصہ چھپتے چھپاتے گزرا۔ روپوشی کے یہ دن پہلے انہوں نے اپنے شہر اور پھر حاصل پور میں بسر کی۔ چونکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق زیادہ عرصہ عالم تنہائی میں گزارنا پڑا۔ اس عالم تنہائی نے ان کے مزاج اور شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ زندگی سے بغاوت کے اس تجربے نے ان کے اندر کی تخلیقی ذات کو تقویت دی خود سے مکالمے نے اپنے باطن سے رشتہ جوڑنے اور اپنی ذات سے ہم کلام ہونے کی ایسی خو ڈالی کہ محمد منیر خاں سے منیر نیازی تک کے سفرمیں اپنی ذات سے مکالمے کی دھیمی لے جو ان کی شاعری کا بنیادی وصف بن گئی۔ان کی ایک نثری نظم’’ایک دفعہ‘‘ ملاحظہ کیجیے۔
ایک دفعہ
وہ مجھ سے لپٹ کر
کسی دوسرے شخص کے غم میں
پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
ان کی اپنی زندگی یا پھر عمومی طور پر زندگی کی بہترین اوربھرپور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
منیر نے مختلف شاعروں اور ادیبوں کے نام مختلف جانوروں کی مماثلت سے رکھے ہوئے تھے۔ منیر نیازی نے ان ناموں کو ڈرائنگ روم کی حد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ قومی اخبارات کو دیئے گئے اپنے انٹرویوز میں بھی ان کا برملا اظہار کیا۔ ان کا ایک انٹرویو شائع ہوتا تو پھر اس کے بعد مختلف ادبی شخصیات کے جوابی حملوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ منیر نیازی کی موت کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر
منیر نیازی کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، ماہِ منیر، چھ رنگین دروازے، آغازِ مستاں میں دوبارہ، ساعتِ سیار اور پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ جیسی شہرہ آفاق کتب شامل تھیں۔
منیر نیازی کو خود اپنے بارے میں بھی شاید خبر نہ ہو کہ اپنی شاعری کی بدولت وہ کس طرح اپنے قارئین کے دلوں میں بستے تھے۔ بعض لوگ انہیں بھوت پریت، چڑیلوں، ڈائنوں اور خوف کا شاعر گردانتے تھے۔بہرکیف ”تنقید بازی‘‘ اپنی جگہ اور منیر نیازی کی شاعری اپنی جگہ۔
عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
۲۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو منیر نیازی عالمِ جاوداں کو کوچ کر گیا اور اپنے مداحین کو بھی صدمہ دے گیا،لیکن ان صدموں کی مہک ہمیشہ باقی رہے گی۔
…..
ایک مشہور پنجابی قطعہ:
کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی
……
بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی
یہ زمیں مثل سراب آسماں ہوتی گئی

کس خرابی میں ہوا پیدا جمال زندگی
اصل کس نقل مکاں میں رائیگاں ہوتی گئی

تنگئ امروز میں آئندہ کے آثار ہیں
ایک ضد بڑھ کر کسی سکھ کا نشاں ہوتی گئی

دوسرے رخ کا پتہ جس کو تھا وہ خاموش تھا
وہ کہانی بس اسی رخ سے بیاں ہوتی گئی

اک صدا اٹھی تو اک عالم ہوا پیدا منیرؔ
اک کلی مہکی تو پورا گلستاں ہوتی گئی
……
دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے
کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے

یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیرؔ
پردہ سا کوئی میرے ترے درمیاں تو ہے
…..
آمد شب

دئے ابھی نہیں جلے
درخت بڑھتی تیرگی میں چھپ چلے
پرند قافلوں میں ڈھل کے اڑ چلے
ہوا ہزار مرگ آرزو کا ایک غم لیے
چلی پہاڑیوں کی سمت رخ کیے
کھلے سمندروں پہ کشتیوں کے بادباں کھلے
سواد شہر کے کھنڈر
گئے دنوں کی خوشبوؤں سے بھر گئے
اکیلی خواب گاہ میں
کسی حسیں نگاہ میں
الم میں لپٹی چاہتیں ورود شب سے جاگ اٹھیں
ہے دل کو بیکلی سیاہ رات آئے گی
جلو میں دکھ کی لاگ کو لیے ہوئے
نگر نگر پہ چھائے گی

  • TAGS
  • muneer neyazi
  • muneer neyazi death
  • muneer neyazi ki shayeri
  • muneer neyazi poetry
  • munir neyazi
  • tooba
  • tooba suhail
SHARE
Previous articleٹورنٹو میرا گھر ہے ، ایک مرتبہ میں بالی وڈ سے ریٹائر ہوجاوں ، میں یہاں واپس لوٹ آوں گا اور یہی رہوں گا: اکشے کمار
Next articleرول آف کارپوریٹ فاونڈیشن ان انکلیو سیو ڈیولپمنٹ پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی سیمنار کا انعقاد

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here