امریکہ چین اور تبت

تحریر حافظ عبدالسلام ندوی (مدرسہ ابوالکلام آزاد چکوا مظفرپور بہار)

ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت نے چین کے خلاف ایک اور سخت قدم اٹھایا ہے ،ٹرمپ نے تبت پر لائے گئے اس بل پر اپنے دستخط کردئے ہیں جسے امریکی پارلیمان کے دونوں ایوان پہلے ہی پاس کرچکے ہیں،اس بل کے پاس ہوجانے کے بعد امریکہ آنے کیلئے اب ان چینی افسروں کو ویزا نہیں دیاجائےگا جو امریکی افسروں ،صحافیوں اور سفارت کاروں وغیرہ کو نہ تو تبت جانے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی ویزا ۔ویسے ظاہری طور پر دیکھیں تو چین کسے تبت جانے کی اجازت دیتا اور کسے نہیں یہ چین کا ذاتی معاملہ ہے،ٹھیک اسی طرح سے اگر امریکہ کچھ چینی افسروں کو کسی بھی سبب سے ویزا دینے سے انکار کرتا ہے ،تواسے بھی اسکا حق مان لیا جانا چاہئے ،لیکن بات اتنی آسان نہیں ہے،یہ تبت میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تو وابستہ ہے ہی ساتھ ہی اسے امریکہ اور چین کے بیچ جاری تنازعہ کے ایک نئے باب کی طرح بھی دیکھا جائیگا ،جہاں تک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے تو یہ الزام چین پر نیا نئی نہیں ہے،اور دنیا بھر کے جن افراد کو تبت میں جانے کا سیاحتی ویزا چین دیتا بھی ہے انہیں بھی وہاں ایک محدود علاقہ میں رہنے کی ہی اجازت ملتی ہے ،تبت کے اندرونی علاقوں میں وہ نہیں جاسکتے ،اسکے علاوہ ایسے کسی بھی شخص کو وہاں جانے نہیں دیا جاتا جن سے تبت کی حقیقت دینا کے سامنے آنے کا خدشہ ہو،حتی کہ ہندوستان کے ساتھ پوری دنیا میں مہاجرانہ زندگی گزاررہے تبتی لوگوں کو بھی نہیں،حالانکہ تبت سے معدودے چند ہی حقیقی خبریں دنیا تک پہنچ پاتی ہیں،یہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ گزشتہ کچھ سال میں چین کے غصب اور اسکی خودمختاری کے خلاف میں ڈیڑھ سو سے بھی زیادہ تبتی خود کشی کرچکے ہیں ،چین پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے الزام وہاں کے مسلم حکومت والے صوبہ شنجیانگ کے بارے میں بھی لگتے رہے ہیں،ایسی بہت ساری خبریں اس وقت دنیا بھر کے میڈیا میں دکھ رہی ہیں ،اسے چین کے خلاف امریکہ کی سخت پالیسیوں سے جوڑکر بھی دیکھا جاتاہے،گزشتہ وقت میں امریکہ نے چین پر سخت تجارتی پابندی لگائے ہیں،جنوبی چینی سمندر میں چین کی تیز رفتاری پر لگام لگانے کی لئے ابھی امریکہ کافی وقت سے فعال نظر آرہاہے،ایسی خبریں بھی اکثر آتی رہتی ہیں کہ چین کی توسیع پر لگام لگانے کے لئے امریکہ ہندوستان ،جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ملکر ایک اتحاد بنانا چاہتا ہے،یہ ساری خبریں اگرچہ الگ الگ لگتی ہوں لیکن ساتھ ساتھ جڑتی بھی ہیں،جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور تبت سے سچ کو چھپانا کوئی نئی بات نہیں ہے ،امریکی افسروں اور صحافیوں کو ویزا نہ دئے جانے کی روش بھی بہت قدیم ہے ،یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ ہمیشہ سے ہی انسانی حقوق کے مدعا کا استعمال سفارتی دباو بنانے کے لئے کرتا رہاہے،فی الحال یہ امید بھی بیکار ہے کہ چین پر کم ازکم اس کوشش کا کوئی اثر پڑنے والا ہے،ویسے بھی جدید امریکی قانون کی بجلی ان چینی افسروں پر ہی گرے گی جو دراصل اپنی حکومت کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے،ہمارے لئے فی الحال بڑی خبر یہی ہے کہ چین امریکہ کے خراب ہوتے رشتے اب ایک نئی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

SHARE
Previous articleڈاکٹر خالد بن حامد الحازمی کی کتاب ”مختصر سیرت رسول”کا تعارف و تبصرہ
Next articleٹورنٹو میرا گھر ہے ، ایک مرتبہ میں بالی وڈ سے ریٹائر ہوجاوں ، میں یہاں واپس لوٹ آوں گا اور یہی رہوں گا: اکشے کمار

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here