سوشل میڈیا کے اردو ادب پہ مثبت اثرات

 

دعا سحر
ساہیوال،پاکستان
ایم ایس سی کیمسٹری

انسان میں تخلیق کاری کی خواہش ہمیشہ سے موجود ہے،تخلیق کار اپنے تخیلات کو لفظوں کی زبان دے کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے جو قاری کو اس جہاں کی سیر کروا آتا ہے جس جہاں میں تخلیق کار لے کر جاتا ہے۔
کارڈ ڈینل نیومن کہتا ہے کہ ”انسانی افکار خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے کرنا ادب کہلاتا ہے”۔
نارمن جودک کہتا ہے
”ادب سے مراد ہے وہ تمام سرمایہ خیالات و احساسات جو تحریر میں آجائیں اور جسے اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ پڑھنے والے کو مسرت ہو”۔

ادب کی دنیا میں اردو ادب کا اک خاص مقام ہے. کہانی کاروں اور شعرا نے اپنے لطیف احساسات کو الفاظ کی زبان دے کر اک الگ انداز سے حقائق کو کھول کر بیان کیا.زیادہ پرانی بات نہیں ہے کچھ دہائیاں اگر پیچھے جاؤں جب اردو کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اردو کو ترویج ملی، تب ہر طرف اردو ادب کی محفلیں سجنے لگی مشاعرے ہونے لگے غرض ہر تخلیق کار اپنے الگ انداز میں اپنے احساسات کو سامنے لانے لگا..لیکن یہ رفتار کچھوے کی چال لئے ہوے تھی.کیونکہ لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا رجحان کم تھا.اور ادب سے وابسطہ رہنے کا ذریعہ کتب اخبارات اور رسالہ جات ہی تھے. جبکہ وسائل محدود ہونے کی بنا پر بہت سے لوگ چاہ کر بھی ادبی محفلوں اور کتابوں سے دور تھے. لیکن پھر بھی اردو ادبا اپنا کام لگن اور محنت سے بنا کسی مفاد کے کرتے رہے.اور اردو ادب کا ستارہ عالم میں جگمگاتا رہا۔
لیکن اس کے بعد چند دہائیاں آگے آئیں یا اب سے تین دہائیاں پیچھے جائیں تو ہمارا تعلق رسم الخط سے کٹنے لگا تھا. ہم پر دوسری قوموں کی زبان اور تہذیب کی چھاپ نظر آنے لگی۔ اور ہم اس کوّے کی مانند ہونے لگے جو ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنے اصل سے دور ہو کر کہیں کا نہ رہا۔

قوموں کی پہچان ان کی زبان و ثقافت سے ہوتی ہے. ہر قوم اپنی زبان کے ساتھ بے پناہ محبت کے رشتے سے جڑی ہوتی ہے۔ اور قوموں کی ترقی و تنزلی کا دارومدار ان کی رسم الخط کے ساتھ محبت پر ہوتا ہے۔جتنا کسی قوم کا تعلق رسم الخط سے مضبوط ہو گا اسی قدر اس قوم کی چھاپ گہری ہو گی.اورہماری پہچان اردو ہے. یہی ہمارا اصل ہے.اور ہمیں اپنے اصل میں چنداں ملاوٹ کی ضرورت نہیں۔
اردو رسم الخط کے ساتھ ہمارے رشتے کی مثال ماس اور ناخنوں کی سی ہے جن کو اگر جدا کر دیا جائے تو سوائے تکلیف اور بد نمائ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ہماری رسم الخط سے دوری اردو ادب کو گہنا رہی تھی.. جہاں کسی کو نہ پڑھنے سے شغف رہا تھا نہ لکھنے سے۔
ایسے میں سوشل میڈیا اردو ادب کے لئے اک مہربان دیوی ثابت ہوا.سوشل میڈیا کے ابھرتے سورج نے اردو رسم الخط کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنا شروع کر دیا اور یوں وہ نسل جو اپنی زبان سے کوسوں دور بھٹک رہی تھی سوشل میڈیا نے اس نئ نسل کا تعلق اردو ادب اور رسم الخط سے استوار کیا.ریڈیو ٹی وی سے شروع ہوتےہوے اک پوری دنیا سمارٹ فونز میں سما گئ جہاں پر ہر خاص و عام کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوئ.اردو سے ٹوٹا رشتہ بحال ہونے لگا. نئ نسل بھی اردو ادب میں دلچپسی لیتی نظر آنے لگی۔

 

لوگ کہتے ہیں سوشل میڈیا کا منفی اثر بہت ہوا ہے اس بات کی مخالفت میں سورہ النحل کا حوالہ دینا چاہوں گی آیت 66 اور 67 میں اک واضح حقیقت سامنے ہے کہ کس طرح سے خیر سے شر اور شر سے خیر نکل آتا ہے
وَاِنَّ لَكُمْ فِى الْاَنْعَامِ لَعِبْـرَةً ۖ نُّسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِىْ بُطُوْنِهٖ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّـبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّارِبِيْنَ (66)
اور بے شک تمہارے لیے چارپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے، ہم ان کے جسم سے خون اور گوبر کے درمیان خالص دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔
وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَـرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا ۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (67)
اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے نشہ اور اچھی غذا بھی بناتے ہو، اس میں لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سمجھتے ہیں۔

بس اسی طرح نکالنے والوں نے اس سوشل میڈیا کے شر سے بھی خیر کو فروغ دینا شروع کر دیا انہوں نے انگور سے شراب نہیں بنائ بلکہ اپنی سوچ اور عمل کو مثبت رکھا اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو ادب کی بھنور میں پھنسی ہچکولے کھاتی کشتی کو ساحل کی امید ہوئی۔

باقاعدہ طور پر اردو سائیٹس کا اجرا ہوا،ابتدائ ویب سائیٹس اردوستان ڈاٹ کام اور اردو دوست ڈاٹ کام نے اردو ادب کی ترویج کے لئے باقاعدہ کام شروع کر دیا. جہاں پر لاکھوں لوگ اپنے احساسات کو خیالات کو سب کے سامنے لانے لگے…بحث و مباحثے ہونے لگے. مشاعرے منعقد ہونے لگے.شروع میں رومن میں لکھا جاتا تھا وقت کے ساتھ یہ تبدیلی بھی آئی کہ اردو رسم الخط استعمال ہونے لگا اور سوشل میڈیا چاہے وہ انسٹا گرام ہو یا واٹس ایپ ، فیس بک یا ٹویٹر، سب اردو رسم الخط سے سج گیا۔

اجتماعی بلاگز کا قیام عمل میں آیا،جس کی بدولت سب کو اردو ادب میں اپنا کمال دکھانے کا موقع ملا، وہ لوگ جو مہینوں اپنا مسودہ لئے طباعت و اشاعت کے لئے خوار ہوتے تھے ان کو اس سے نجات ملی.اور اپنی تحریروں،شاعری.،نظم و نثر سے ادب کی دنیا میں اپنے قدم جمانے لگے۔

تمام کتب کا بیش بہا خزانہ پی ڈی ایف فائلز میں دستیاب ہونے لگا اور ان کے لئے آسانی ہوئ جو پڑھنے کا شغف رکھتے ہوے بھی پڑھ نہیں پاتے تھے. کتابیں پڑھنے سے ان کی سوچ کو فروغ ملا اور اپنی سوچ کو الفاظ میں مرتب کرنے لگے. ای لائبریریز متعارف ہوئیں..جہاں پر ادب کا پورا سمندر سمٹ کر موبائل کے کوزے میں بند ہو گیا..جہاں چاہو جب چاہو جس بھی لکھاری کو پڑھنا چاہو سب تک رسائ پلک جھپکتے ہی ممکن ہو گئی۔

خاص طور پر گروپس اور پیجیز بنائے گئے جہاں پر مختلف مقابلے کروائے جانے لگے جن کی بدولت ہر خاص و عام نے قلم اٹھایا اور نا پختہ تحاریر سے پختہ تحاریر کی طرف قدم گامزن ہونے لگے..اور اچھے سے اچھا لکھنے کی لگن پیدا ہونے لگے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر سب لکھنے لگ جائیں تو پڑھے گا کون جبکہ میرا ماننا ہے جو لکھتا ہے وہ سب سے زیادہ پڑھتا ہے.اپنی تحاریر کو بہترین بنانے کے لئے مطالعے کی عادت بڑھنے لگی. نئی نسل کا تعارف اقبال کی روح پرور شاعری سے ہونے لگا منٹو کی افسانہ نگاری سے رشتہ استوار ہونے لگا. سفر ناموں کے احوال سے لوگ گھر میں بیٹھے دنیا جہاں کی سیر کرنے لگے. ممتاز مفتی واصف علی واصف کی کتابوں سے استتفادہ ہونے لگا. عورتوں میں لکھنے کا جو فقدان تھا انہوں نے بانو قدسیہ کی تحاریر سے رہنمائ لینا شروع کی اور بہت سی لکھاری عورتیں اردو ادب کی اس دوڑ میں شامل ہو گئیں.غرض لوگوں کو ہر ممکن طریقہ سے لکھنے اور پڑھنے پر مائل کیا جانے لگا.کلاسز کا اجرا ہونے لگا جہاں صرف لفظوں سے کھیلنے کا ہنر سکھایا جانے لگا۔
سوشل میڈیا وہ جگہ ہے جہاں پر پوری دنیا کے لوگ اک دوسرے سے جڑے ہیں۔ اس لیے اک دوسرے کی زبان تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کا یہاں موقع ملتا ہے، مختلف لوگوں کے مشاہدے سامنے آتے ہیں،ایک ہی چیز کو مختلف زاویہ نظر سے دیکھنے والے اور خوبصورت الفاظ میں پرونے والے لوگ سامنے آتے ہیں اور پھر لوگ اک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں اور بحث و مباحثہ بھی اوراس سےادب پڑھنے اور لکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔


بہت سے گوہرِ نایاب جو لفظوں کے موتی پرونا جانتے تھے جو الفاظ سے کھیلنے میں کمال ہنر رکھتے تھے لیکن مخصوص ذرائع یا پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث وقت کی دھول میں کہیں گم ہو جاتے تھے سوشل میڈیا نے ایسے لعل و گہرکی پہچان پوری دنیا میں کروائی اور سوشل میڈیا پہ موجود جوہر شناسوں نے پتھر کی آڑ میں چھپے ان ہیروں کی تراش خراش کرکچھ اچھے شعرا و ادبا کا اضافہ کیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج کے اس دور میں سوشل میڈیا نے اس غوطہ خور کا کردار ادا کیا ہے جو سمندروں کی تہوں میں چھپے بے بہا قیمتی موتیوں کو نکال کر باہر لاتا ہے، جہاں تک عام حالات میں عام انسان کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور ان تمام قیمتی موتیوں کو اک مالا میں پرونے کا فریضہ سر انجام دیا ہے. اک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے اردو ادب کے فروغ میں اہم کردارادا کیا ہے
سوشل میڈیا میٹھے پانی کا وہ کنواں ثابت ہوا ہے جو ہر ادب کے پیاسے کی پیاس بجھانے کو ہر وقت میسر ہے… بس اب اس کا انحصار پیاسے پر ہے وہ ادب کی پیاس بجھا کر سیر ہوتا ہے یا کسی نا اہل کی طرح دوسروں کے انتظار میں رہتا ہے…..اور بہت لوگ اس ادب کے کنویں سے فیض یاب ہو رہے ہیں

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here