(نہرو کی یوم پیدائش پر خاص)
جواہر لال نہرو کے متعلق بہت سی ایسی باتیں ہیں جو انھیں ایک مقبول لیڈر، ایک شوقین مزاج شخص، دوستی یاری نبھانے والا اور سائنسی نقطہ نظر کی فکر رکھنے والا شخص کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
اپنے زمانے میں نہرو کا شمار دنیا کے پانچ بہترین انگریزی زبان میں لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔ کسی دوسرے شخص کے لکھے کسی کاغذ پر دستخط کرنا ان کی شان کے خلاف ہوتا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ نہرو کا زیادہ تر وقت خطوط کو ڈکٹیٹ کرنے یا اپنی تقریر تیار کرنے پر صرف ہوتا تھا۔ نہرو کے بہترین خطابات یا تو بغیر کسی تیاری کے اچانک دیے گئے ہوتے تھے یا انھوں نے انھیں خود تیار کیا ہوتا تھا۔
مہاتما گاندھی کے قتل پر کی گئی ان کی مشہور تقریر ہماری زندگی کی روشنی گُل ہو گئی (دی لائٹ از گان آؤٹ آف آور لائف) تحریری تقریر نہیں تھی اور انھوں نے ریڈیو سٹوڈیو میں فی البدیہہ خطاب کیا تھا۔
برناڈ شا سے ملاقات
نہرو اس دور کے مشہور مصنف جارج برناڈ شا سے ملاقات کرنےگئے تھے تو برناڈ شا نے انھیں اپنی کتاب ’سكسٹين سیلف سكیچیز‘ پر اپنا دستخط کر کے انھیں پیش کی تھی
نہرو کے سکریٹری ایم او متھائی اپنی کتاب’ریمینسنز آف نہرو ایج‘ میں لکھتے ہیں کہ جب نہرو اس دور کے مشہور مصنف جارج برناڈ شا سے ملاقات کرنےگئے تھے تو برناڈ شا نے انھیں اپنی کتاب ’سكسٹین سیلف سكیچیز‘ پر اپنا دستخط کر کے انھیں پیش کی تھی۔
انھوں نے اس پر نہرو کا نام جواہر لال کی جگہ جواہریل لکھا۔ متھائی نے فوراً اس غلطی کی طرف ان کی توجہ دلائی۔ شا اپنی لائبریری میں گئے اور نہرو کی سوانح عمری نکال کر لائے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، لیکن شرارتی انداز میں بولے اس کو ایسے ہی رہنے دو ’یہ بہتر ہے‘ (اٹ ساؤنڈز بیٹر)۔
نہرو نے بطور تحفہ انھیں چونسہ آم پیش کیے۔ شا نے پہلی بار آم دیکھا تھا۔ وہ سمجھے کہ آم کی گٹھلیاں کھائی جاتی ہیں۔ نہرو نے انھیں آم کاٹ کر دكھلایا اور بتایا کہ کس طرح آم کا گودا کھایا جاتا ہے۔
کنجوس نہرو
نہرو اپنے پر بہت کم پیسے خرچ کرتے تھے۔ متھائی کہتے ہیں کہ کچھ معاملات میں تو انھیں کنجوس کہا جا سکتا تھا۔ لیکن ایک بار انھوں نے سیس برونر کی مہاتما گاندھی کی گہری فکر کے پوز میں بنائی گئی پینٹنگ خریدنے کے لیے پانچ ہزار روپے خرچ کرنے میں ایک سیکنڈ کا بھی وقت نہیں لیا۔
ان کی سکیورٹی پر مامور ایک افسر کے ایف رستم جی لکھتے ہیں کہ ایک بار ڈبروگڑھ کے سفر کے دوران وہ ان کا سگریٹ کیس لینے ان کے کمرے میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کا ملازم ان کے پھٹے ہوئے سیاہ موزے سی رہا ہے۔ نہرو کو فضول خرچی بہت ناپسند تھی۔
کئی بار وہ اپنی کار ركوا كر اپنے ڈرائیور کو بھیجتے تھے کہ وہ باغ میں چل رہا پانی کا پائپ بند کر کے آئے۔ ایک بار سعودی عرب کے دورے کے دوران انھوں نے ریاض کے جگمگاتے شاہی محل کے ایک ایک کمرے میں جا کر اس کی لائٹیں آف کی تھیں۔
555 برانڈ کی سگریٹ
ایک بار کسی نے کے ایف رستم سے پوچھا کہ کیا نہرو شراب پیتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کبھی نہیں۔ جی ہاں انھیں سگریٹ پینے کی عادت ضرور تھی۔
وہ سٹیٹ ایکسپریس 555 پیا کرتے تھے۔ پہلے وہ دن بھر میں 20 یا25 سگریٹ پی جاتے تھے لیکن بعد میں وہ دن بھر میں صرف پانچ سگریٹ پیا کرتے تھے۔
نہرو کے وقت میں تمام غیر ملکی حکمراں یا تو صدارتی محل میں ٹھہرا کرتے تھے یا نہرو کی رہائش گاہ کی جگہ تین مورتی بھون میں۔ اس دوران ان غیر ملکی مہمانوں کے کمروں میں وزارت خارجہ کی طرف سے طرح طرح کی چنندہ شراب کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ شراب پیش کرنے کے لیے ایک انگریزی بولنے والا ساقی متعین کر دیا جاتا تھا۔
لیکن نہرو کی جانب سے دی گئی کسی سرکاری ضیافت میں کوئی بھی شراب کبھی پیش نہیں کی جاتی تھی۔
ایک بار سردار پٹیل سے کسی نے پوچھا کہ اس وقت بھارت میں سب سے بڑا قوم پرست مسلمان کون ہے۔ سب سوچ رہے تھے کہ پٹیل، مولانا آزاد یا رفیع احمد قدوائی کا نام لیں گے، لیکن پٹیل کا جواب تھا ’مولانا نہرو‘
سردار پٹیل نہرو سے تیرہ سال بڑے تھے اور گاندھی سے سات سال چھوٹے تھے۔ اندر ملہوترا بتاتے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کے گھر آس پاس تھے۔ نہرو نے انھیں کہہ رکھا تھا کہ جب بھی کوئی مشورہ کرنا ہو وہ خود ان کے گھر آئیں گے۔ انھیں ان کے یہاں آنے کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
وہ ہمیشہ ان کے پاس پیدل جاتے تھے۔ مولانا آزاد ذرا دور رہتے تھے۔ اس لیے نہرو ان کے گھر گاڑی میں جاتے تھے اور گپ شپ کرتے تھے۔ ٹیلیفون پر نہرو کی كرٹسی ہوتی تھی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے مولانا کو فون ملاتے تھے۔
ایک دن انھوں نے اپنے ذاتی سیکریٹری ایم او متھائی سے کہا کہ مولانا صاحب سے فون پر بات کروائیے۔ جب مولانا نے فون لیا اور نہرو آئے تو ان کا پہلا جملہ تھا ’جواہر لال تمہاری انگلیوں میں تکلیف ہے کیا کہ تم دوسرے سے فون ملوا رہے ہو۔‘ نہرو مولانا کا مطلب سمجھ گئے اور بولےآئندہ سے یہ غلطی کبھی نہیں ہوگی۔
ایک بار سردار پٹیل سے کسی نے پوچھا کہ اس وقت بھارت میں سب سے بڑا قوم پرست مسلمان کون ہے۔ سب سوچ رہے تھے کہ پٹیل، مولانا آزاد یا رفیع احمد قدوائی کا نام لیں گے، لیکن پٹیل کا جواب تھا ’مولانا نہرو‘۔
غیر توہم پرست نہرو
نہرو کو اپنے آپ کو غیر توہم پرست کہلانے میں مزہ آتا تھا۔ انھوں نے کبھی بھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا، کبھی کوئی نذر نہیں پیش کی اور نہ ہی کسی نجومی سے مشورہ لیا۔ ایک بار 1954 میں کمبھ کے میلے کے دوران لال بہادر شاستری نے انھیں منانے کی کوشش کی کہ مونی اماوسیہ کے موقع پر وہ گنگا میں ڈبکی لگائیں۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کے کروڑوں لوگ ایسا کرتے ہیں۔ نہرو کو ان لوگوں کا اورگنگا کا احترام کرتے ہوئے ایسا کرنا چاہیے۔ نہرو کا جواب تھا ’گنگا میرے وجود کا حصہ ہے میرے لیے یہ تاریخی دریا ہے لیکن پھر بھی میں اس میں کمبھ کے دوران نہیں نہاؤں گا۔ ویسے اس میں نہانا مجھے پسند ہے، لیکن کمبھ کے دوران ہرگز نہیں۔‘
نہرو غصے میں
ویسے تو نہرو بہت خوش طبیعت کے مالک تھے لیکن جب کبھی ان کو غصہ آتا تھا تو وہ تمام حدیں پار کر جاتے تھے۔
ان کی سکیورٹی پر مامور رہنے والے افسر کے ایف رستم اپنی کتاب ’آئی واز نہروز شیڈو‘ میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1953 میں جب پاکستان کے وزیر اعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ دہلی کے ہوائی اڈے پر اترے تو انھیں نہرو کے غصے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔
ہوا یہ کہ جیسے ہی جہاز کی سیڑھیاں لگائی گئیں، وہاں موجود قریب پچاس کیمرہ مین مکھیوں کی طرح جہاز کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی پاکستانی وزیر اعظم اترے، پیچھے کھڑی بھیڑ بھی آگے آ گئی اور دھکم پیل ہونے لگی۔ نہرو کا پارہ چڑھا تو بس اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
انھوں نے غصے سے چلاتے ہوئے کیمرہ مین کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔ کسی ایک شخص نے نہرو کے لیے کار کا دروازہ کھولا۔ نہرو نے غصے میں وہ دروازہ بند کر دیا اور پھولوں کے ایک بڑےگلدستے سے لوگوں کی پٹائی کرنے دوڑے۔ رستم جی نے بڑی مشکل سے انھیں جیپ پر سوار ہونے کے لیے راضی کیا۔
ناراض نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم جیپ میں سوار ہو کر صدارتی محل گئے اور ان کی بڑی کار جیپ کے پیچھے پیچھے بغیر کسی سواری کے آئی۔
بی بی سی اردو