نوجوان نسل کی ابھرتی ہوئی شاعرہ طوبیٰ سہیل کی تین نظمیں
شاید
شاید دلچسپی نہیں رہی
شاید دل بھر گیا تمہارا
شاید یہ محبت ہی نہیں تھی
کہ بس پہچان تھی بے ڈھنگ
الفاظ کے ڈھیر سے
جھلکتا پیمانہ تھی
شاید وہ بھی نہیں تھا
شاید میں بھی نہیں تھی
فرق اس کو پڑا جس کی
فقیری بھی نہیں تھی
رفاقت بھی نہیں تھی
فرقت بھی نہیں تھی
امارت بھی نہیں تھی
احساس سے بھرا
ترازو بھی نہیں تھا
کہ جس کو تولا جاتا
یا مولا جاتا
عبرت کے نشاں سے
کندن کی آنکھ سے
سراہا جاتا
مٹایا جاتا
گویا وہ بھی نہ ہوا
گویا یہ بھی نہ ہوا
شاید ہو بھی گیا تھا
شاید ہونا ہی نہیں تھا
۲
سنو مسافر
راہ میں سفر کے ٹیک لگائے
لب پر اک پھول کو سجائے
مسکرا رہا ہوں
مسکرانا کیا ہے
بلبلانا کیا ہے
روتے رہنا
چلتے جانا
رکتے رکتے.. پلٹتے جانا
ضد کی آڑ میں
چیختے جانا
قسمیں وعدے کرتے جانا
پٹخ پٹخ کر توڑتے جانا
جاناں جاناں کرتے جانا
اوس گل دھڑکتا ساون
خاک در میں ڈھلتے جانا
پس پامال کن کی آشنائی
صدائے دل کی روشنائی
سجا رہی ہے
بتا رہی ہے
سفر ابھی بہت بچا ہے
ہاتھ تھامو یہی بقاء ہے
طوبی سہیل
۳
کاش
کاش کے تم کو بتائیں ہم
تجھ پہ اس طرح سے حق جتائیں ہم
بے چارگی کو اپنی
تجھ میں کھو کر تجھے دکھائیں ہم
تو جو بول دے تو فلک کے سمت
یہ رکی ہوئی ہواکی سمت
یہ عرش کی روش میں ہم
ایسا کوئی رستہ نکال دیں
بنے جو تیرے جمیل میں
عروج کی تکمیل میں
تیرا قرض ہم جو اتار دیں
پھر ایسا حلیہ بگاڑ لیں
تو منع کرے اور پھر بھی ہم
لباس کو تن سے اکھاڑ لیں
اندھیر بھرے نگر میں ہم
قسمت کی وحشت اتار لیں
روکے جو تو قریب سے
پھر حصار نیا باندھ لیں
تو بلا بلا کر کہے ہمیں
میرے داغ کومٹا دو تم
……میرے نگر کی گر ٹھان لو تم
طوبی سہیل