قابل اجمیری ۔ اردو کے آخری رومانوی شاعر

قابل اجمیری ۔ اردو کے آخری رومانوی شاعر۔

یوم وفات پر خاص۔

تحریر: طوبیٰ سہیل
ریسرچ اسکالر
فیصل آباد ایگریکلچرل یونیورسٹی
پاکستان

آج تین اکتوبر چھوٹی عمر کے بڑے شاعر قابل اجمیری کی وفات کا دن ہے۔۔ قابل اجمیری،افسردگی اور رومانوی امتزاج کے ایک منفرد تخیلاتی شاعر تھے۔۔ان کی شاعری برہم ذہن ہونے کے باوجود جذبوں کو یکجا اور فکر کو مربوط رکھنے کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔۔جگر مرادآبادی بلا وجہ قابل اجمیری سے متاثر نہ تھے،انہوں نے ان کے بارے میں کہا تھا ۔۔ قابل کے کلام سے ان کی انفرادیت نمایاں ہے اور یہی خصوصیت شاعر کے لیے اہم  ہے۔۔
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو میری ضرورت ہے

قابل اجمیری کا اصل نام عبد الرحیم تھا،قابل ان کا تخلص رہا ہے۔۔آپ ۲۷ اگست ۱۹۳۱ کو چرلی راجستھان میں پیدا ہوئے۔۔آپ کے والد ظفر قابل اجمیری کا انتقال تپ دق کی وجہ سے ہوا ۔۔ عمر کا وہ حصہ قابل کے لیے بہت اذیت ناک تھا،قابل کی شاعری میں درد ان کی زندگی کی عطا ہے۔۔کچھ عرصی بعد ہی ان کی والدہ اور کم سن ہمشیرہ فاطمہ کی بھی وفات ہو گئی۔۔
تقسیم ہند کے دور میں قابل حیدر آباد سندھ اپنے بھائی کے پاس تشریف لے آئے اور وہیں ریائش پذیر ہوئے۔۔انہوں نے چودہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا ۔۔ اختر انصاری اکبرآبادی کی شاگردی میں قابل نے حیدر آبادی روزنامے ”جاوید” میں قطعہ نگاری کی شروعات کی،قطعات لکھنے کے ساتھ غزل اور نظم بھی کہتے رہے،۱۹۶۰ میں طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے آپ کوئٹہ کے سینوٹیریم میں علاج کے لیے داخل ہوئے ۔۔ تپ دق کے مرض میں مبتلا قابل اجمیری کی زندگی میں امید نے کروٹ لی اور وہ زندگی کو پیار کی نگاہوں سے دیکھنے لگے،ان کا اپنا مرض ہی مرض عشق بن گیا تھا۔۔
نرگس بیگم سے ان کے صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور تین اکتوبر ۱۹۶۲ کو ۳۱ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔۔ان کی وفات کے بعد قابل اجمیری کے شعری مجموعوں” دیدہ بیدار” اور ”رگ جاں”کو ان کی اہلیہ نے شائع کروایا۔۔ اسکے بعد سلیم جعفری نے کلیات قابل شائع کیا۔
اجل کی گود میں قابل ہوئی ہے عمر تمام
عجب نہیں کہ میری موت زندگی ہو جائے

قابل کی پوری زندگی المیہ رہی ہے اس لیے ان سے حزن و یاس  کےعلاوہ اور کسی چیز کی کیا توقع کی جا سکتی ہے لیکن ان سب کے باوجود قابل اپنے سماج اور معاشرے سے بلکل بیگانہ نہیں رہے قابل نے درد و کرب کی کہانیاں تو بیان کی ہی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تغیرات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اسی لیے قابل کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔۔۔ان کے دو قطعے دیکھیے
کچھ غم زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈاکے ہیں
راہ گزر حیات میں ہم نے
خود نئے رستے نکالے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکست ساز کی آواز ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخاب کلام۔۔۔۔

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
چراغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے
طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد
رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے

انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہء غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاوء ، ہم جہاں تک آگئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہء سود و زیاں تک آگئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
دل رسم و رہ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیل تمنا کے لیے عمر پڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تری بزم سے اٹھنا
محسوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
آوارہ و رسوا ہی سہی ہم منزل شب میں
اک صبح بہاراں سے مگر آنکھ لڑی ہے
کیا نقش ابھی دیکھیے ہوتے ہیں نمایاں
حالات کے چہرے سے ذرا گرد جھڑی ہے
کچھ دیر کسی زلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابلؔ غم دوراں کی ابھی دھوپ کڑی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی رائے دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here