مہوش مقصود
(فیصل آباد, پاکستان)
یہ ایک انوکھی طرز کے رنگوں کی دنیا ہے جہاں الیکٹران، پروٹان کا پیار تو ہر لمحہ نظر آتا ہی ہے کہ کیسے پروٹان کسی سم ون سپیشل کی طرح نیوکیلیس میں تشریف فرما رہتے ہیں اور الیکٹران انکے گرد فریفتہ ہوئے گھومتے رہتے ہیں یوں کہ جیسے انکے اپنے مدار سے نکلتے ہی سب درہم برہم ہوجائے گا اور سچ میں ہوتا بھی ویسے یہی ہے الیکٹرانز کے جاتے ہی بیچارہ ایٹم اپنی سب انرجی کھو کر کسی ڈونر ایٹم کا منتظر ہوکر رہ جاتا کہ وہ آئے اپنے الیکٹران دے.. آپ اپنی تسلی کے لیے ڈونر ایٹم کی جگہ ڈونر ایٹمی (ایٹم کی فی میل جو شاید پہلی بار میں نے ہی ایجاد کی ہے کا تصور بھی کرسکتے ہیں).. جہاں یہ پیار دیکھنے کو ملتا ہے وہیں ایسڈ بیس اور سالٹس کے رنگ برنگے ری ایکشن خاص طور پر سلفیورک ایسڈکا کلورائڈز کے ساتھ ری ایکشن کیا خوب مزے کا ہوتا ہے کہ کلورائڈ کے سلوشن میں سلفیورک ایسڈ کو ڈالنے سے جب وہ کسی سفید پانی کے چشمے کی طرح اچانک اوپر کو آتا ہے تو ٹیسٹ ٹیوب ہولڈر ہاتھ میں پکڑے چیخیں نکل جاتی ہیں مگر خوشی سے.. اورمیرے جیسے سر پھرے جب بغیر کسی احتیاط کیے پورے دل سے اسے کرتے ہیں تو دیکھنے والے کو تو خود بخود ہی مزہ آنے لگتا ہے.. اور اففففف ٹائٹریشن میں pippete کے ساتھ بیس کو suck کرنا.. مزہ آجاتا ہے کہ جیسے کوک کو suck کرکے پینے کے لیے سٹورکر لیاہو ..
اور یونہی اچانک ایک دن ہم پر پہلی ہی نظر میں فزیکل کیمسٹری سے پیار ہوجانے کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس میں ایک کیمسٹ کی بحث والی حس جاگ کر سامنے آتی ہے کہ وہ ٹیچرز کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پوائنٹس پر وکیل اور مدعی کی طرح جرح کرتے ہوئے اور مشکل سے ہی کسی ایک پوائنٹ پر متفق ہونے پر نئے نویلے دولہا دلہن کی طرح پھر پیار سے صلح کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں مگر اس سب سے جہاں یہ خوشی ہوتی ہے کہ ہمیں کیمسٹری آنے لگ گئ ہے وہیں پھر ہر ہر کانسیپٹ کی کھچڑی کی بنا کر انکے ذریعے اتنے زیادہ نمیریکلز حل کروائے جاتے ہیں کہ فیلنگ جسٹ میتھ ود آؤٹ کیمسٹری والا ورد فضا میں بلند بلند ہوتے ہوئے فریکل کا پیار عشق اور پھر جوگ کا رنگ دھارنے لگتا ہے..
پودوں اور جانوروں کے سٹرکچرز کی سلائیڈز بنا کر مائیکروسکوپ کے ذریعے آبزرو کرتے ہوئے، سیمپل کو ڈائی کرتے ہوئے، پھلوں اور دالوں میں موجود سٹارچ، پروٹین، سیلولوز کو identify کرتے ہوئے، کبھی کبھی ٹیسٹ کا رزلٹ ٹھیک نہ آنے پر میم سے ڈانٹ کھا کر دوبارہ پرفارم کرتے ہوئے چڑ کر ہر چیز کی مقدار زیادہ استعمال کرتے ہوئے، کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم الیکٹران، پروٹان کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں مگر…اسی دن جب دوبارہ فزیکل کیمسٹری کی لیب ہوجائے تو دوبارہ سے وہی اٹریکٹو اور ریپلسو فورسز آجاتی ہیں جن سب کے مل ملا کر کانسیپٹ یا تھیوری آف ریٹیویٹی تک پہنچا دیتے ہیں پھر تھیوری آف سلیپنگ ان فرسٹ رو
یونہی بس اب ان آرگینک کیمسٹری کہیں سے چلی آتی ہے جس کے کمپلیکسز جنجھوڑ جنجھوڑ کر نیند میں سے نکال لاتے ہیں کہ انکے نومن کلیچر کے رولز اور فارمولے ہی ایسے مغلیانہ جاہ وجلال سے وارد ہوتے ہیں کہ انسان انکی بے ٽباتی پر غور تک کرنے کے قابل نہیں رہتا اور بس رٹا لگانے میں جان کی امان پاتا ہے مگر وہ بھی پھر جب رٹا لگ جائے تو کسی سخی شہنشاہ کی طرح پھر ایسے سمجھ میں آتے کہ الطاف حسین حالی کی مسدس میں بھی وہ بات نہ ہو .. کہ انسان جھومتا اور کہتا پھرتا ہے کہ:
شہنشاہ من ما راج من
نہ ہی تخت نہ ہی تاج
نہ شاہی ناظر نہ دھن
بس عشق محبت اپنا پن
زندگی میں راوی چین ہی چین لکھنے ہی لگتا ہے کہ آرگینک جاگ جاتی ہے. . اففففف مت پوچھیے کہ آرگینک کیا ہے یہ اگر تو سمجھ آجائے تو درد دل کی دوا ہے وگرنہ بس درد ہے درد دل… کہ اسکے آگے پھر میر درد کا درد بھی. چھوٹا پڑتا ہوا نظر آتا ہے اور انسان اسکے ٹیچرز، نیٹ اور کلاس فیلوز کے سامنے دامن پھیلائے فیلنگ مرزا غالب بٹ سیڈ اینڈ الون بنے کہتا ہے کہ:
دل آرگینک بتا تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم کو ان سے ہے آکسیڈیشن کی امید
جو نہیں جانتے ہماری ویلنسی کیا ہے
اور یوں آخر پھر عوام آرگینک کا دکھ لیے ہوئے اینالیکٹکل کے دیس میں بسنے چلی جاتی ہے جہاں اتنے اینالسز کرنے پڑتے ہیں کہ سوتے ہوئے بھی ساس بھی کبھی بہوتھی کی طرح مائیکرو ویو میں پڑا غلطی سے زیادہ برن ہوجانے والا سیمپل اب میم سے ہونے والی عزت افزائی کی نوید سناتا ہے…اور اگر کبھی غلطی سے اینالسز ٹھیک ہوہی جائے تو نند کی شوہر سے، کولیگ کی باس سے اور کلاس میں مخالف گروپ کی میم سے عزت افزائی کروانے والی فیلنگ آنے لگتی ہے…
مگر کچھ لمحوں میں ہی وہاں بھی سپیکٹروسکوپی ویلکم کرتے ہوئے ملتی ہے جسکی ادائیں دور سے اتنی دلربا لگتی ہیں کہ انسان اپنی قسمت پر عش عش کرنے لگتا ہے مگر جونہی سپیکٹروسکوپی کی انسٹرومینٹیشن شروع ہوتی ہے انسان خود کو بھی کیتھوڈ ریز کی طرح کبھی الیکٹرک اور کبھی میگنیٹک فیلڈ میں چکراتے ہوئے پاتا ہے کہ چکر ختم کرنے کو پھر کبھی کینٹین پر چاکلیٹ شیک اور کبھی فرینڈز سے زبردستی کی ٹریٹس نکلواتا ہے…
مگر کیمسٹری کا پیار بھی زندگی کی طرح رکتا نہیں ہے تو کیمکلز کے ساتھ جان بوجھ کر بس مختلف رنگ بنانے کےلیے ری ایکشن کرنے والوں میں اب بائیو کیمسٹری کو سہارنے کی بھی سکت نہیں رہتی مگر کیا کریں بائیوکیمسٹری بن کر ہی اتنی پیاری آتی ہے کہ اسکی بدولت سے بدلتا ہوا موڈ انسان کی فورینزک کی چھپی ہوئی حس کو جگانے لگتا ہے اور وہ فوڈ انسپکٹر بن کر اپنا لاہور سے کہیں اور تبادلہ کروانے کا سوچنے لگتا ہے…
انہی سوچوں میں انوائرمینٹل کیمسٹری کسی جی ایف (بی ایف کی بجائے جی ایف اس لیے کہا کہ وہ زیادہ لیچڑ ہوتی ہیں.انکے ساتھ مسلسل گزارا کرنا کسی صبر آزما مرحلے سے کم نہیں ہوتا مگر خیر وقت تو اچھا گزار ہی دیتی ہیں) طرح ہر ہر دوسرے سمسٹر میں چلی آتی ہے اور مزہ دیتی ہے کیونکہ اس میں ہمیں کئ مزے کے پراجیکٹ جیسا کہ قدرتی چیزوں سے لوشن، کریمز، مچھر مار لوشن وغیرہ تک بنانے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہم سٹریٹو اور ٹروپو سفئیر کی بھی سیر کر آتے ہیں کہ دل ہی دل آسٹروناٹ بننے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے…
اور جب کیمیکل گارڈن بنایا تھا اس دن کی خوشی تو بھلائے نہیں بھولتی کہ دل کو دھڑکن، زبان کو گول گپوں کا کھٹا، منہ کو چاکیلٹ مل گئ ہو اور آنکھوں کو راج کماری والی فراک میں اپنا آپ گارڈن میں گھومتا ہوا لگ رہا تھا(آپ چاہیں تو راج کمار کو بھی تصور میں لاسکتے ہیں مگر بس آپ کیونکہ میرے گھر والوں کو تو ابھی مائکروسکوپ لا کر دینا پڑے گی) کہ میں خود کو وہ گھسا پٹا گانا گانے سے نہ بھی نہ روک پائی…
ایسا لگتا ہے میں ہوا میں ہوں آج اتنی خوشی ملی ہے…
مگر سب کا حاصل حصول پھر آرگینک ہی بنتی ہے کہ وہ تو ہے ہی بینزین کی اچھلتی کودتی کانجوگیشن اور خاص طور پر ایسڈ اور بیس کے دھماکہ خیز پیار سے بننے والا سالٹ….